ایک زمانہ تھا جب پوری دنیا یونان کے گن گاتی تھی اس کے بعد ایک ہزار سال تک مسلمانوں کا عروج رہا۔ پوری دنیا ہمارا لباس پہنتی, ہمارے علوم پڑھتی اور ہماری ہی زبان بولتی تھی۔ لیکن آج مسلم دنیا اور دیگر ملکوں میں جو عدم مساوات ہے،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک پوری اسلامی دنیا کی مجموعی پیداوار 1300 ڈالر فی کس تھی جبکہ تنہا جاپان کی جی ڈی پی 5500 ڈالر تھی ۔ مسلم دنیا میں380 یونیورسٹیاں تھی اور ان کی تعداد صرف جاپان میں 1000 تھی۔ تمام مسلم ممالک مل کر ایک سال میں500 پی ایچ ڈی ڈاکٹر تیار کر رہے تھے اور صرف بھارت میں سالانہ پی ایچ ڈی کرنے والوں کی تعداد 5000 تھی۔ دنیا کی تقریباً %24 مسلم آبادی میں نوبل پرائز حاصل کرنے والوں کی تعداد 14 ہے اور صرف یہودیوں میں ان کی تعداد 129 ہے جو پوری دنیا کا %1 بھی نہیں ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق %35 مسلم ان پڑھ ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم نے صرف قرآن اور احادیث کو ہی علم سمجھا اور سائنس کے علم سے دور ہو گئے۔ اسلام نے علم کی اہمیت پر بہت زور دیا اور حضرت محمّد صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے اس حدیث کے مطابق علم حاصل کرنا فرض ہے اس کے علاوہ بھی کئی حدیثیں علم کی اہمیت پر زور دیتی ہیں۔ جنگ بدر میں مشرک قیدیوں کیلیے رہائی کی یہ شرط رکھی گئی کہ ہر قیدی 10 مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سیکھا ۓ، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ علم چاہے غیر مسلم سے کیوں نہ سیکھنا پڑےلیکن ہمیں علم ضرور سیکھنا چاہیے۔
قرآن کی پہلی آیت جو نازل ہوئی اس میں بھی علم کی اہمیت پر زور دیا۔ پہلی دو آیات کا ترجمہ ہے کہ (اپنے رب کے نام سے پڑھوجس نے پیدا کیا۔ انسان کو خون کے لوتھڑے سے بنایا۔) اگر غور کریں تو پہلی آیت میں پڑھنے کا حکم دیا اور دوسری آیت میں ہی سائنس کی طرف اشارہ کر دیا کہ الله نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے بنایا۔
ہم آج کی سائنس اور ٹیکنالوجی کو اسلام کے خلاف سمجھتے ہیں یہ ہماری ہی کم عقلی ہے, قرآن میں کل 6666 آیات ہیں ، جن میں سے تقریباً 1000 آیات آج کی ماڈرن سائنس اور ٹیکنالوجی کی بات کرتی ہیں۔
لیکن افسوس آج ہم سائنس کے علوم میں بہت پیچھے ہیں ، جس کے نتیجے میں ہم آج انگریزوں کےسیاسی اور ذہنی غلام ہیں۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ ہم جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے بغیر مغربی فتنے معیشت اور میڈیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔اگر ہم آج بھی صرف دین کو علم بنا کر بیٹھے رہے تو ہمیں مغربی سیاسی و ذہنی غلامی سے نکلنے کا سوچنا ہی نہیں چاہیٔے۔ ہم اسی قابل رہیں گے کہ ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں اور بچے تنکا تنکا چن کر جانوروں کا چارہ جمع کرکے سر پر اٹھا کر گھر لائیں اور جانوروں کے آگے ڈالتے رہیں گے۔ اور ہم ہل چلا کراور مٹی کھود کر غلہ، گندم، پٹ سن اور کپاس اگا کر مغرب کو ایسے نرخوں پر بھیجتے رہیں گے کہ مغرب امیر سے امیر تک ہوتا رہے گا اور ہم غلہ بیچ کر ان سے ٹریکٹر اور مشینریاں خریدتے رہیں گے اور غریب سے غریب ہوتے رہیں گے۔ دو وقت کی روٹی کو آج بھی ترس رہے ہیں اور ترستے رہیں گے۔ بینکوں سے قرضے لے کر فصلوں کو پانی دیتے رہیں گے۔
Tuesday, June 26, 2018
ڈارک ویب اندھیر نگری چوپٹ راج
ڈارک نیٹ،ڈیپ نیٹ اس کا استعمال اور اثرات
یہ بات حقیقت ہے کہ انٹرنیٹ کی آمد سے انسانی طرز زندگی،معاشرتی میل ملاپ اور سائنسی و تعلیمی میدان میں انقلاب برپا ہو گیا ہے۔
انٹرنیٹ نے جہاں معلومات اور اطلاعات کے ساتھ ساتھ سماجی رابطے میں بے پناہ اضافہ کیا ہے اور لوگوں کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔ وہی اس کے منفی اثرات بھی قوموں کی اقدار و روایات اور مذہبی و معاشرتی قوانین کی دھجیاں اڑاتے نظر آتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی وسیع و عریض دنیا منفی کردار کے حامل لوگوں ہاتھوں میں ہونے کی وجہ سے یہ انسانیت کے لیے زہر قاتل ثابت ہورہی ہے۔
ڈارک نیٹ اور ڈیپ ویب کیا ہے اور یہ عام انٹرنیٹ سے کس طرح مختلف ہے-
دنیا بھر میں انٹرنیٹ کے اربوں صارفین ہیں جو مختلف انداز سے اس سے جڑے ہوئے ہیں۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹس ہوں یا آن لائن بینکنگ سسٹم،سیکورٹی کے نظام ہوں یا دفاعی نوعیت کے انتظامات ہوں تمام کے تمام کسی نہ کسی انداز میں انٹرنیٹ سے وابستہ ہیں۔ تعلیمی میدان سے لیکر معاشی اور معاشرتی ترقی میں انٹرنیٹ کا استعمال بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
انٹرنیٹ کا عام صارف جب کسی بھی مقصد کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال کرتا ہے تو وہ گوگل یا مختلف سرچ انجنز کا استعمال کرتا ہے اور مطلوبہ ویب سائٹس تک رسائی کے لیے www. _____ com. جیسی ایکسٹینشن استعمال کرتا ہے انٹرنیٹ کا یہ حصہ تمام لوگوں کی رسائی اور دسترس میں ہے اور تمام لوگ اس سے اپنے اپنے انداز میں مستفید ہوتے ہیں۔
انٹرنیٹ کی دنیا کا دوسرا حصہ ڈیپ ویب کے نام سے جانا جاتا ہے اس حصے میں مختلف آئی ٹی کمپنیز،آن لائن بینکنگ کا ڈیٹا،مختلف دفاعی اداروں کے خفیہ ڈاکیومنٹس کے تبادلے اور حکومتوں کے ہائی پروفائل ڈیٹا کو محفوظ رکھنے کے لیے اور اس کے تبادلہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔
اس حصے میں صرف مطلوبہ شخص ہی اپنی شناخت اور پاسورڈ کے ساتھ صرف مطلوبہ مواد تک رسائی حاصل کر سکتا ہے انٹرنیٹ کا یہ حصہ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
انٹرنیٹ کی بے حد و حساب دنیا کا تیسرا سب سے بڑا اور محفوظ ترین حصہ ڈارک نیٹ یا پاتال کہلاتا ہے۔
یہ حصہ دنیا بھر کے جرائم پیشہ عناصر کے لیے جنت کی حیثیت رکھتا ہے۔
2007 کے بعد اس حصے کے صارفین کی تعداد میں غیر معمولی اضافے دیکھنے میں آیا ہے۔اس وقت دنیا بھر میں اس کے یوزرز کی تعداد کروڑوں میں ہے۔
انٹرنیٹ کی دنیا میں ایک ایسی کمیونٹی بھی ہے جس تک رسائی عام براؤزر سے ممکن نہیں ہے۔ یہ کمیونٹی دنیا بھر میں منشیات کی خرید وفروخت،اسلحے کی تجارت اور جعلی ڈاکیومنٹس کے تبادلے کے ساتھ ساتھ ہر قسم کی غیر قانونی کاموں میں ملوث ہے۔ یہ لوگ غلاموں کی تجارت اور انسانی اعضاء کی خرید وفروخت کا گھناؤنا کام بھی ایک طویل عرصے سے سرانجام دے رہے ہیں۔
ان لوگوں کا لین دین کا طریقہ نہایت محفوظ اور پراسرار ہوتا ہے کہ بڑے بڑے سیکیورٹی ادارے اور سائبر کرائم سیلز بھی ان کا سراغ لگانے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔
یہ لوگ اپنے معاملات میں بڑے محتاط واقع ہوتے ہیں۔اور دنیا بھر سے پوری چھان بین کے بعد قابل اعتماد لوگوں کو ہی اپنی کمیونٹی کا حصہ بناتے ہیں۔
ڈارک ویب تک رسائی اتنی آسان نہیں ہے۔ عام سرچ انجن اور براؤزر کو استعمال کرتے ہوئے ڈارک اور ڈیپ ویب تک رسائی قریباً ناممکن ہے ۔اس مقصد کے لیے خاص قسم کے براؤزرز کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً ٹور اور اونین براؤزرز
ڈارک ویب ک رسائی کے لیے مطلوبہ ویب سائٹ کے ایڈمن سے رابطہ کرنے کے بعد صرف مطلوبہ ایڈریس اور پاسورڈ کے ذریعے ہی رسائی ممکن ہوتی ہے۔
ڈارک ویب کا سب سے خطرناک اور پراسرار حصہ ڈارک یا ریڈ رومز (Dark or red rooms) ہے۔
اس حصہ میں براہِ راست قتل غارت گری اور بچوں،بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مناظر دکھائے جاتے ہیں۔ ایسے لوگ جن کے پاس بے تحاشہ دولت ہوتی ہے اور وہ نفسیاتی عارضوں میں مبتلا ہوتے ہیں وہ دوسرے لوگوں کو مصیبت میں دیکھ کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔اور وہ اس مقصد کے لیے پیسوں کو پانی کی طرح بہاتے ہیں اور اپنی حس لطافت کی تسکین کے لیے اپنی پسند کی اذیتیں دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ کمسن بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مناظر براہِ راست دکھانے کے لیے باقاعدہ بولیاں لگتی ہیں اور زیادہ قیمت دینے والے کو اس کے مطلوبہ انداز میں سیکس (sex) دکھایا جاتا ہے۔ اس میں بڑی عمر کے افراد کمسن بچوں کے ساتھ سیکس کرتے ہیں۔ یہ سیکشن پیڈوفیلیا یا وائلنٹ پورن انڈسٹری کہلاتا ہے۔ لوگوں کے گلے اور کلائیوں کے ساتھ ساتھ جسم کے تمام اعضاء کاٹنے کے مناظر بھی براہِ راست پیجز پر دکھائے جاتے ہیں۔ ان خطرناک اور دل دہلا دینے والے مناظر کو دیکھنے والے لوگ مطلوبہ رقم کی ادائیگی کے بعد ہی ان کو جوائن کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
ڈارک ویب میں انسانی سمگلنگ اور تمام جرائم کا معاوضہ اور رقوم کی ترسیل ڈیجیٹل کرنسی(Digital currency) یعنی بٹ کوائن اور مختلف کرپٹوکرنسیز میں ہوتا ہے۔ جس کو مانیٹر کرنا حکومتی اداروں کے بس میں بھی نہیں ہے۔اور نہ ہی کوئی اس کی ٹرازیکشن کے متعلق کسی قسم کا ایکشن یا عدالتی کاروائی کر سکتا ہے کیونکہ یہ ایک آزاد (independent) کرنسی ہے۔
کچھ لوگوں کا یہ مطالبہ ہے کہ ڈارک ویب پر پابندی عائد کر دینی چاہیے۔ان لوگوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ڈارک ویب یا کسی بھی قسم کی جدید ٹیکنالوجی کسی محدود دائرہ میں مقید کرنا آسان کام نہیں ہےاور نہ ہی ان عناصر کی مکمل طور پر بیخ کنی کوئی آسان کام ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو مناسب انداز میں راہ نمائی دیں۔اور ان کی اعلیٰ اقدار و روایات کے مطابق ذہن سازی کریں تا کہ وہ رفتار زمانہ کا ساتھ دیں اور ملک اور مذہب دشمن عناصر کی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کرسکیں۔
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو
یہ بات حقیقت ہے کہ انٹرنیٹ کی آمد سے انسانی طرز زندگی،معاشرتی میل ملاپ اور سائنسی و تعلیمی میدان میں انقلاب برپا ہو گیا ہے۔
انٹرنیٹ نے جہاں معلومات اور اطلاعات کے ساتھ ساتھ سماجی رابطے میں بے پناہ اضافہ کیا ہے اور لوگوں کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔ وہی اس کے منفی اثرات بھی قوموں کی اقدار و روایات اور مذہبی و معاشرتی قوانین کی دھجیاں اڑاتے نظر آتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی وسیع و عریض دنیا منفی کردار کے حامل لوگوں ہاتھوں میں ہونے کی وجہ سے یہ انسانیت کے لیے زہر قاتل ثابت ہورہی ہے۔
ڈارک نیٹ اور ڈیپ ویب کیا ہے اور یہ عام انٹرنیٹ سے کس طرح مختلف ہے-
دنیا بھر میں انٹرنیٹ کے اربوں صارفین ہیں جو مختلف انداز سے اس سے جڑے ہوئے ہیں۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹس ہوں یا آن لائن بینکنگ سسٹم،سیکورٹی کے نظام ہوں یا دفاعی نوعیت کے انتظامات ہوں تمام کے تمام کسی نہ کسی انداز میں انٹرنیٹ سے وابستہ ہیں۔ تعلیمی میدان سے لیکر معاشی اور معاشرتی ترقی میں انٹرنیٹ کا استعمال بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
انٹرنیٹ کا عام صارف جب کسی بھی مقصد کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال کرتا ہے تو وہ گوگل یا مختلف سرچ انجنز کا استعمال کرتا ہے اور مطلوبہ ویب سائٹس تک رسائی کے لیے www. _____ com. جیسی ایکسٹینشن استعمال کرتا ہے انٹرنیٹ کا یہ حصہ تمام لوگوں کی رسائی اور دسترس میں ہے اور تمام لوگ اس سے اپنے اپنے انداز میں مستفید ہوتے ہیں۔
انٹرنیٹ کی دنیا کا دوسرا حصہ ڈیپ ویب کے نام سے جانا جاتا ہے اس حصے میں مختلف آئی ٹی کمپنیز،آن لائن بینکنگ کا ڈیٹا،مختلف دفاعی اداروں کے خفیہ ڈاکیومنٹس کے تبادلے اور حکومتوں کے ہائی پروفائل ڈیٹا کو محفوظ رکھنے کے لیے اور اس کے تبادلہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔
اس حصے میں صرف مطلوبہ شخص ہی اپنی شناخت اور پاسورڈ کے ساتھ صرف مطلوبہ مواد تک رسائی حاصل کر سکتا ہے انٹرنیٹ کا یہ حصہ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
انٹرنیٹ کی بے حد و حساب دنیا کا تیسرا سب سے بڑا اور محفوظ ترین حصہ ڈارک نیٹ یا پاتال کہلاتا ہے۔
یہ حصہ دنیا بھر کے جرائم پیشہ عناصر کے لیے جنت کی حیثیت رکھتا ہے۔
2007 کے بعد اس حصے کے صارفین کی تعداد میں غیر معمولی اضافے دیکھنے میں آیا ہے۔اس وقت دنیا بھر میں اس کے یوزرز کی تعداد کروڑوں میں ہے۔
انٹرنیٹ کی دنیا میں ایک ایسی کمیونٹی بھی ہے جس تک رسائی عام براؤزر سے ممکن نہیں ہے۔ یہ کمیونٹی دنیا بھر میں منشیات کی خرید وفروخت،اسلحے کی تجارت اور جعلی ڈاکیومنٹس کے تبادلے کے ساتھ ساتھ ہر قسم کی غیر قانونی کاموں میں ملوث ہے۔ یہ لوگ غلاموں کی تجارت اور انسانی اعضاء کی خرید وفروخت کا گھناؤنا کام بھی ایک طویل عرصے سے سرانجام دے رہے ہیں۔
ان لوگوں کا لین دین کا طریقہ نہایت محفوظ اور پراسرار ہوتا ہے کہ بڑے بڑے سیکیورٹی ادارے اور سائبر کرائم سیلز بھی ان کا سراغ لگانے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔
یہ لوگ اپنے معاملات میں بڑے محتاط واقع ہوتے ہیں۔اور دنیا بھر سے پوری چھان بین کے بعد قابل اعتماد لوگوں کو ہی اپنی کمیونٹی کا حصہ بناتے ہیں۔
ڈارک ویب تک رسائی اتنی آسان نہیں ہے۔ عام سرچ انجن اور براؤزر کو استعمال کرتے ہوئے ڈارک اور ڈیپ ویب تک رسائی قریباً ناممکن ہے ۔اس مقصد کے لیے خاص قسم کے براؤزرز کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً ٹور اور اونین براؤزرز
ڈارک ویب ک رسائی کے لیے مطلوبہ ویب سائٹ کے ایڈمن سے رابطہ کرنے کے بعد صرف مطلوبہ ایڈریس اور پاسورڈ کے ذریعے ہی رسائی ممکن ہوتی ہے۔
ڈارک ویب کا سب سے خطرناک اور پراسرار حصہ ڈارک یا ریڈ رومز (Dark or red rooms) ہے۔
اس حصہ میں براہِ راست قتل غارت گری اور بچوں،بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مناظر دکھائے جاتے ہیں۔ ایسے لوگ جن کے پاس بے تحاشہ دولت ہوتی ہے اور وہ نفسیاتی عارضوں میں مبتلا ہوتے ہیں وہ دوسرے لوگوں کو مصیبت میں دیکھ کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔اور وہ اس مقصد کے لیے پیسوں کو پانی کی طرح بہاتے ہیں اور اپنی حس لطافت کی تسکین کے لیے اپنی پسند کی اذیتیں دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ کمسن بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مناظر براہِ راست دکھانے کے لیے باقاعدہ بولیاں لگتی ہیں اور زیادہ قیمت دینے والے کو اس کے مطلوبہ انداز میں سیکس (sex) دکھایا جاتا ہے۔ اس میں بڑی عمر کے افراد کمسن بچوں کے ساتھ سیکس کرتے ہیں۔ یہ سیکشن پیڈوفیلیا یا وائلنٹ پورن انڈسٹری کہلاتا ہے۔ لوگوں کے گلے اور کلائیوں کے ساتھ ساتھ جسم کے تمام اعضاء کاٹنے کے مناظر بھی براہِ راست پیجز پر دکھائے جاتے ہیں۔ ان خطرناک اور دل دہلا دینے والے مناظر کو دیکھنے والے لوگ مطلوبہ رقم کی ادائیگی کے بعد ہی ان کو جوائن کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
ڈارک ویب میں انسانی سمگلنگ اور تمام جرائم کا معاوضہ اور رقوم کی ترسیل ڈیجیٹل کرنسی(Digital currency) یعنی بٹ کوائن اور مختلف کرپٹوکرنسیز میں ہوتا ہے۔ جس کو مانیٹر کرنا حکومتی اداروں کے بس میں بھی نہیں ہے۔اور نہ ہی کوئی اس کی ٹرازیکشن کے متعلق کسی قسم کا ایکشن یا عدالتی کاروائی کر سکتا ہے کیونکہ یہ ایک آزاد (independent) کرنسی ہے۔
کچھ لوگوں کا یہ مطالبہ ہے کہ ڈارک ویب پر پابندی عائد کر دینی چاہیے۔ان لوگوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ڈارک ویب یا کسی بھی قسم کی جدید ٹیکنالوجی کسی محدود دائرہ میں مقید کرنا آسان کام نہیں ہےاور نہ ہی ان عناصر کی مکمل طور پر بیخ کنی کوئی آسان کام ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو مناسب انداز میں راہ نمائی دیں۔اور ان کی اعلیٰ اقدار و روایات کے مطابق ذہن سازی کریں تا کہ وہ رفتار زمانہ کا ساتھ دیں اور ملک اور مذہب دشمن عناصر کی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کرسکیں۔
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو
انسان زمینی مخلوق نہیں ہے
انسان زمین کا ایلین ہے ۔
ڈاکٹر ایلیس سِلور(Ellis Silver)نے اپنی کتاب (Humans are not from Earth) میں تہلکہ خیز دعویٰ کیا ہے کہ انسان اس سیارے زمین کا اصل رہائشی نہیں ہے بلکہ اسے کسی دوسرے سیارے پر تخلیق کیا گیا اور کسی وجہ سے اس کے اصل سیارے سے اس کے موجودہ رہائشی سیارے زمین پر پھینک دیا گیا۔
ڈاکٹر ایلیس جو کہ ایک سائنسدان محقق مصنف اور امریکہ کا نامور ایکالوجسٹ(Ecologist)ھے اس کی کتاب میں اس کے الفاظ پر غور کیجئیے۔ زھن میں رھے کہ یہ الفاظ ایک سائنسدان کے ہیں جو کسی مذھب پر یقین نہیں رکھتا۔
اس کا کہنا ھے کہ انسان جس ماحول میں پہلی بار تخلیق کیا گیا اور جہاں یہ رھتا رھا ھے وہ سیارہ ، وہ جگہ اس قدر آرام دہ پرسکون اور مناسب ماحول والی تھی جسے وی وی آئی پی کہا جا سکتا ھے وہاں پر انسان بہت ھی نرم و نازک ماحول میں رھتا تھا اس کی نازک مزاجی اور آرام پرست طبیعت سے معلوم ھوتا ھے کہ اسے اپنی روٹی روزی کے لئے کچھ بھی تردد نہین کرنا پڑتا تھا ، یہ کوئی بہت ہی لاڈلی مخلوق تھی جسے اتنی لگژری لائف میسر تھی ۔ ۔ وہ ماحول ایسا تھا جہاں سردی اور گرمی کی بجائے بہار جیسا موسم رھتا تھا اور وہاں پر سورج جیسے خطرناک ستارے کی تیز دھوپ اور الٹراوائلیٹ شعاعیں بالکل نہیں تھیں جو اس کی برداشت سے باھر اور تکلیف دہ ھوتی ہیں۔
تب اس مخلوق انسان سے کوئی غلطی ہوئی ۔۔
اس کو کسی غلطی کی وجہ سے اس آرام دہ اور عیاشی کے ماحول سے نکال کر پھینک دیا گیا تھا ۔جس نے انسان کو اس سیارے سے نکالا لگتا ہے وہ کوئی انتہائی طاقتور ہستی تھی جس کے کنٹرول میں سیاروں ستاروں کا نظام بھی تھا ۔۔۔ وہ جسے چاہتا ، جس سیارے پر چاہتا ، سزا یا جزا کے طور پر کسی کو بھجوا سکتا تھا۔ وہ مخلوقات کو پیدا کرنے پر بھی قادر تھا۔
ڈاکٹر سلور کا کہنا ہے کہ ممکن ہے زمین کسی ایسی جگہ کی مانند تھی جسے جیل قرار دیا جاسکتا ھے ۔ یہاں پر صرف مجرموں کو سزا کے طور پر بھیجا جاتا ہو۔ کیونکہ زمین کی شکل۔۔ کالا پانی جیل کی طرح ہے ۔۔۔ خشکی کے ایک ایسے ٹکڑے کی شکل جس کے چاروں طرف سمندر ہی سمندر ھے ، وہاں انسان کو بھیج دیا گیا۔
ڈاکٹر سلور ایک سائنٹسٹ ہے جو صرف مشاہدات کے نتائج حاصل کرنے بعد رائے قائم کرتا ہے ۔ اس کی کتاب میں سائنسی دلائل کا ایک انبار ہے جن سے انکار ممکن نہیں۔
اس کے دلائل کی بڑی بنیاد جن پوائنٹس پر ھے ان میں سے چند ایک ثابت شدہ یہ ہیں۔
نمبر ایک ۔ زمین کی کش ثقل اور جہاں سے انسان آیا ہے اس جگہ کی کشش ثقل میں بہت زیادہ فرق ہے ۔ جس سیارے سے انسان آیا ہے وہاں کی کشش ثقل زمین سے بہت کم تھی ، جس کی وجہ سے انسان کے لئے چلنا پھرنا بوجھ اٹھا وغیرہ بہت آسان تھا۔ انسانوں کے اندر کمر درد کی شکایت زیادہ گریوٹی کی وجہ سے ہے ۔
نمبر دو ؛انسان میں جتنے دائمی امراض پائے جاتے ہیں وہ باقی کسی ایک بھی مخلوق میں نہیں جو زمین پر بس رہی ہے ۔ ڈاکٹر ایلیس لکھتا ہے کہ آپ اس روئے زمین پر ایک بھی ایسا انسان دکھا دیجئیے جسے کوئی ایک بھی بیماری نہ ہو تو میں اپنے دعوے سے دستبردار ہوسکتا ہوں جبکہ میں آپ کو ھر جانور کے بارے میں بتا سکتا ہوں کہ وہ وقتی اور عارضی بیماریوں کو چھوڑ کر کسی ایک بھی مرض میں ایک بھی جانور گرفتار نہیں ہے ۔
نمبر تین ؛ ایک بھی انسان زیادہ دیر تک دھوپ میں بیٹھنا برداشت نہیں کر سکتا بلکہ کچھ ہی دیر بعد اس کو چکر آنے لگتے ہیں اور سن سٹروک کا شکار ہوسکتا ہے جبکہ جانوروں میں ایسا کوئی ایشو نہیں ھے مہینوں دھوپ میں رھنے کے باوجود جانور نہ تو کسی جلدی بیماری کا شکار ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی اور طرح کے مر ض میں مبتلا ہوتے ہیں جس کا تعلق سورج کی تیز شعاعوں یا دھوپ سے ہو۔
نمبر چار ؛ ہر انسان یہی محسوس کرتا ہے اور ہر وقت اسے احساس رہتا ہے کہ اس کا گھر اس سیارے پر نہیں۔ کبھی کبھی اس پر بلاوجہ ایسی اداسی طاری ہوجاتی ہے جیسی کسی پردیس میں رہنے والے پر ہوتی ہے چاہے وہ بیشک اپنے گھر میں اپنے قریبی خونی رشتے داروں کے پاس ہی کیوں نا بیٹھا ہوں۔
نمبر پانچ زمین پر رہنے والی تمام مخلوقات کا ٹمپریچر آٹومیٹک طریقے سے ہر سیکنڈ بعد ریگولیٹ ہوتا رہتا ہے یعنی اگر سخت اور تیز دھوپ ھے تو ان کے جسم کا درجہ حرارت خود کار طریقے سے ریگولیٹ ہو جائے گا، جبکہ اسی وقت اگر بادل آ جاتے ہیں تو ان کے جسم کا ٹمپریچر سائے کے مطابق ہو جائے گا جبکہ انسان کا ایسا کوئی سسٹم نہیں بلکہ انسان بدلتے موسم اور ماحول کے ساتھ بیمار ھونے لگ جائے گا۔ موسمی بخار کا لفظ صرف انسانوں میں ھے۔
نمبر چھ ؛انسان اس سیارے پر پائے جانے والے دوسرے جانداروں سے بہت مختلف ہے ۔ اسکا ڈی این اے اور جینز کی تعداد اس سیارہ زمین پہ جانے والے دوسرے جانداروں سے بہت مختلف اور بہت زیادہ ہے۔
نمبر سات: زمین کے اصل رہائشی (جانوروں) کو اپنی غذا حاصل کرنا اور اسے کھانا مشکل نہیں، وہ ہر غذا ڈائریکٹ کھاتے ہیں، جبکہ انسان کو اپنی غذا کے چند لقمے حاصل کرنے کیلیئے ہزاروں جتن کرنا پڑتے ہیں، پہلے چیزوں کو پکا کر نرم کرنا پڑتا ھے پھر اس کے معدہ اور جسم کے مطابق وہ غذا استعمال کے قابل ھوتی ھے، اس سے بھی ظاہر ھوتا ھے کہ انسان زمین کا رہنے والا نہیں ھے ۔ جب یہ اپنے اصل سیارے پر تھا تو وہاں اسے کھانا پکانے کا جھنجٹ نہیں اٹھانا پڑتا تھا بلکہ ہر چیز کو ڈائریکٹ غذا کیلیئے استعمال کرتا تھا۔
مزید یہ اکیلا دو پاؤں پر چلنے والا ھے جو اس کے یہاں پر ایلین ھونے کی نشانی ھے۔
نمبر آٹھ: انسان کو زمین پر رہنے کیلیے بہت نرم و گداز بستر کی ضرورت ھوتی ھے جبکہ زمین کے اصل باسیوں یعنی جانوروں کو اس طرح نرم بستر کی ضرورت نہیں ھوتی۔ یہ اس چیز کی علامت ھے کہ انسان کے اصل سیارے پر سونے اور آرام کرنے کی جگہ انتہائی نرم و نازک تھی جو اس کے جسم کی نازکی کے مطابق تھی ۔
نمبر نو: انسان زمین کے سب باسیوں سے بالکل الگ ھے لہذا یہ یہاں پر کسی بھی جانور (بندر یا چمپینزی وغیرہ) کی ارتقائی شکل نہیں ھے بلکہ اسے کسی اور سیارے سے زمین پر کوئی اور مخلوق لا کر پھینک گئی ھے ۔
انسان کو جس اصل سیارے پر تخلیق کیا گیا تھا وہاں زمین جیسا گندا ماحول نہیں تھا، اس کی نرم و نازک جلد جو زمین کے سورج کی دھوپ میں جھلس کر سیاہ ہوجاتی ہے اس کے پیدائشی سیارے کے مطابق بالکل مناسب بنائی گئی تھی ۔ یہ اتنا نازک مزاج تھا کہ زمین پر آنے کے بعد بھی اپنی نازک مزاجی کے مطابق ماحول پیدا کرنے کی کوششوں میں رھتا ھے۔جس طرح اسے اپنے سیارے پر آرام دہ اور پرتعیش بستر پر سونے کی عادت تھی وہ زمین پر آنے کے بعد بھی اسی کے لئے اب بھی کوشش کرتا ھے کہ زیادہ سے زیادہ آرام دہ زندگی گزار سکوں۔ جیسے خوبصورت قیمتی اور مضبوط محلات مکانات اسے وہاں اس کے ماں باپ کو میسر تھے وہ اب بھی انہی جیسے بنانے کی کوشش کرتا ہے ۔ جبکہ باقی سب جانور اور مخلوقات اس سے بے نیاز ہیں۔ یہاں زمین کی مخلوقات عقل سے عاری اور تھرڈ کلاس زندگی کی عادی ہیں جن کو نہ اچھا سوچنے کی توفیق ہے نہ اچھا رہنے کی اور نہ ہی امن سکون سے رھنے کی۔ انسان ان مخلوقات کو دیکھ دیکھ کر خونخوار ہوگیا۔ جبکہ اس کی اصلیت محبت فنون لطیفہ اور امن و سکون کی زندگی تھی ۔۔یہ ایک ایسا قیدی ہے جسے سزا کے طور پر تھرڈ کلاس سیارے پر بھیج دیا گیا تاکہ اپنی سزا کا دورانیہ گزار کر واپس آ جائے ۔ڈاکٹر ایلیس کا کہنا ہے کہ انسان کی عقل و شعور اور ترقی سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ایلین کے والدین کو اپنے سیارے سے زمین پر آئے ہوئے کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا ، ابھی کچھ ہزار سال ہی گزرے ہیں یہ ابھی اپنی زندگی کو اپنے پرانے سیارے کی طرح لگژری بنانے کے لئے بھرپور کوشش کر رہاہے ، کبھی گاڑیاں ایجاد کرتا ہے ، کبھی موبائل فون اگر اسے آئے ہوئے چند لاکھ بھی گزرے ہوتے تو یہ جو آج ایجادات نظر آ رہی ہیں یہ ہزاروں سال پہلے وجود میں آ چکی ہوتیں ، کیونکہ میں اور تم اتنے گئے گزرے نہیں کہ لاکھوں سال تک جانوروں کی طرح بیچارگی اور ترس کی زندگی گزارتے رہتے۔
ڈاکٹر ایلیس سِلور کی کتاب میں اس حوالے سے بہت کچھ ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس کے دلائل کو ابھی تک کوئی جھوٹا نہیں ثابت کر سکا۔۔
میں اس کے سائنسی دلائل اور مفرو ضوں پر غور کر رہا تھا۔۔ یہ کہانی ایک سائنسدان بیان کر رہا ھے یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ حقیقی داستان ہے جسے انسانوں کی ہر الہامی کتاب میں بالکل اسی طرح بیان کیا گیا ہے۔ میں اس پر اس لئے تفصیل نہیں لکھوں گا کیونکہ آپ سبھی اپنے باپ آدم ؑ اور حوا ؑ کے قصے کو اچھی طرح جانتے ہیں۔۔ سائنس اللہ کی طرف چل پڑی ہے ۔۔ سائنسدان وہ سب کہنے پر مجبور ھوگئے ہیں جو انبیاء کرام اپنی نسلوں کو بتاتے رہے تھے ۔ میں نے نسل انسانی پر لکھنا شروع کیا تھا۔ اب اس تحریر کے بعد میں اس سلسلے کو بہتر انداز میں آگے بڑھا سکوں گا۔۔
ارتقاء کے نظریات کا جنازہ اٹھ چکا ہے ۔۔ اب انسانوں کی سوچ کی سمت درست ہو رہی ھے ۔۔ یہ سیارہ ہمارا نہیں ہے ۔یہ میں نہیں کہتا بلکہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بیشمار بار بتا دیا تھا۔ اللہ پاک نے اپنی عظیم کتاب قران حکیم میں بھی بار بار لاتعداد مرتبہ یہی بتا دیا کہ اے انسانوں یہ دنیا کی زندگی تمہاری آزمائش کی جگہ ہے ۔ جہاں سے تم کو تمہارے اعمال کے مطابق سزا و جزا ملے گی ۔
ڈاکٹر ایلیس سِلور(Ellis Silver)نے اپنی کتاب (Humans are not from Earth) میں تہلکہ خیز دعویٰ کیا ہے کہ انسان اس سیارے زمین کا اصل رہائشی نہیں ہے بلکہ اسے کسی دوسرے سیارے پر تخلیق کیا گیا اور کسی وجہ سے اس کے اصل سیارے سے اس کے موجودہ رہائشی سیارے زمین پر پھینک دیا گیا۔
ڈاکٹر ایلیس جو کہ ایک سائنسدان محقق مصنف اور امریکہ کا نامور ایکالوجسٹ(Ecologist)ھے اس کی کتاب میں اس کے الفاظ پر غور کیجئیے۔ زھن میں رھے کہ یہ الفاظ ایک سائنسدان کے ہیں جو کسی مذھب پر یقین نہیں رکھتا۔
اس کا کہنا ھے کہ انسان جس ماحول میں پہلی بار تخلیق کیا گیا اور جہاں یہ رھتا رھا ھے وہ سیارہ ، وہ جگہ اس قدر آرام دہ پرسکون اور مناسب ماحول والی تھی جسے وی وی آئی پی کہا جا سکتا ھے وہاں پر انسان بہت ھی نرم و نازک ماحول میں رھتا تھا اس کی نازک مزاجی اور آرام پرست طبیعت سے معلوم ھوتا ھے کہ اسے اپنی روٹی روزی کے لئے کچھ بھی تردد نہین کرنا پڑتا تھا ، یہ کوئی بہت ہی لاڈلی مخلوق تھی جسے اتنی لگژری لائف میسر تھی ۔ ۔ وہ ماحول ایسا تھا جہاں سردی اور گرمی کی بجائے بہار جیسا موسم رھتا تھا اور وہاں پر سورج جیسے خطرناک ستارے کی تیز دھوپ اور الٹراوائلیٹ شعاعیں بالکل نہیں تھیں جو اس کی برداشت سے باھر اور تکلیف دہ ھوتی ہیں۔
تب اس مخلوق انسان سے کوئی غلطی ہوئی ۔۔
اس کو کسی غلطی کی وجہ سے اس آرام دہ اور عیاشی کے ماحول سے نکال کر پھینک دیا گیا تھا ۔جس نے انسان کو اس سیارے سے نکالا لگتا ہے وہ کوئی انتہائی طاقتور ہستی تھی جس کے کنٹرول میں سیاروں ستاروں کا نظام بھی تھا ۔۔۔ وہ جسے چاہتا ، جس سیارے پر چاہتا ، سزا یا جزا کے طور پر کسی کو بھجوا سکتا تھا۔ وہ مخلوقات کو پیدا کرنے پر بھی قادر تھا۔
ڈاکٹر سلور کا کہنا ہے کہ ممکن ہے زمین کسی ایسی جگہ کی مانند تھی جسے جیل قرار دیا جاسکتا ھے ۔ یہاں پر صرف مجرموں کو سزا کے طور پر بھیجا جاتا ہو۔ کیونکہ زمین کی شکل۔۔ کالا پانی جیل کی طرح ہے ۔۔۔ خشکی کے ایک ایسے ٹکڑے کی شکل جس کے چاروں طرف سمندر ہی سمندر ھے ، وہاں انسان کو بھیج دیا گیا۔
ڈاکٹر سلور ایک سائنٹسٹ ہے جو صرف مشاہدات کے نتائج حاصل کرنے بعد رائے قائم کرتا ہے ۔ اس کی کتاب میں سائنسی دلائل کا ایک انبار ہے جن سے انکار ممکن نہیں۔
اس کے دلائل کی بڑی بنیاد جن پوائنٹس پر ھے ان میں سے چند ایک ثابت شدہ یہ ہیں۔
نمبر ایک ۔ زمین کی کش ثقل اور جہاں سے انسان آیا ہے اس جگہ کی کشش ثقل میں بہت زیادہ فرق ہے ۔ جس سیارے سے انسان آیا ہے وہاں کی کشش ثقل زمین سے بہت کم تھی ، جس کی وجہ سے انسان کے لئے چلنا پھرنا بوجھ اٹھا وغیرہ بہت آسان تھا۔ انسانوں کے اندر کمر درد کی شکایت زیادہ گریوٹی کی وجہ سے ہے ۔
نمبر دو ؛انسان میں جتنے دائمی امراض پائے جاتے ہیں وہ باقی کسی ایک بھی مخلوق میں نہیں جو زمین پر بس رہی ہے ۔ ڈاکٹر ایلیس لکھتا ہے کہ آپ اس روئے زمین پر ایک بھی ایسا انسان دکھا دیجئیے جسے کوئی ایک بھی بیماری نہ ہو تو میں اپنے دعوے سے دستبردار ہوسکتا ہوں جبکہ میں آپ کو ھر جانور کے بارے میں بتا سکتا ہوں کہ وہ وقتی اور عارضی بیماریوں کو چھوڑ کر کسی ایک بھی مرض میں ایک بھی جانور گرفتار نہیں ہے ۔
نمبر تین ؛ ایک بھی انسان زیادہ دیر تک دھوپ میں بیٹھنا برداشت نہیں کر سکتا بلکہ کچھ ہی دیر بعد اس کو چکر آنے لگتے ہیں اور سن سٹروک کا شکار ہوسکتا ہے جبکہ جانوروں میں ایسا کوئی ایشو نہیں ھے مہینوں دھوپ میں رھنے کے باوجود جانور نہ تو کسی جلدی بیماری کا شکار ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی اور طرح کے مر ض میں مبتلا ہوتے ہیں جس کا تعلق سورج کی تیز شعاعوں یا دھوپ سے ہو۔
نمبر چار ؛ ہر انسان یہی محسوس کرتا ہے اور ہر وقت اسے احساس رہتا ہے کہ اس کا گھر اس سیارے پر نہیں۔ کبھی کبھی اس پر بلاوجہ ایسی اداسی طاری ہوجاتی ہے جیسی کسی پردیس میں رہنے والے پر ہوتی ہے چاہے وہ بیشک اپنے گھر میں اپنے قریبی خونی رشتے داروں کے پاس ہی کیوں نا بیٹھا ہوں۔
نمبر پانچ زمین پر رہنے والی تمام مخلوقات کا ٹمپریچر آٹومیٹک طریقے سے ہر سیکنڈ بعد ریگولیٹ ہوتا رہتا ہے یعنی اگر سخت اور تیز دھوپ ھے تو ان کے جسم کا درجہ حرارت خود کار طریقے سے ریگولیٹ ہو جائے گا، جبکہ اسی وقت اگر بادل آ جاتے ہیں تو ان کے جسم کا ٹمپریچر سائے کے مطابق ہو جائے گا جبکہ انسان کا ایسا کوئی سسٹم نہیں بلکہ انسان بدلتے موسم اور ماحول کے ساتھ بیمار ھونے لگ جائے گا۔ موسمی بخار کا لفظ صرف انسانوں میں ھے۔
نمبر چھ ؛انسان اس سیارے پر پائے جانے والے دوسرے جانداروں سے بہت مختلف ہے ۔ اسکا ڈی این اے اور جینز کی تعداد اس سیارہ زمین پہ جانے والے دوسرے جانداروں سے بہت مختلف اور بہت زیادہ ہے۔
نمبر سات: زمین کے اصل رہائشی (جانوروں) کو اپنی غذا حاصل کرنا اور اسے کھانا مشکل نہیں، وہ ہر غذا ڈائریکٹ کھاتے ہیں، جبکہ انسان کو اپنی غذا کے چند لقمے حاصل کرنے کیلیئے ہزاروں جتن کرنا پڑتے ہیں، پہلے چیزوں کو پکا کر نرم کرنا پڑتا ھے پھر اس کے معدہ اور جسم کے مطابق وہ غذا استعمال کے قابل ھوتی ھے، اس سے بھی ظاہر ھوتا ھے کہ انسان زمین کا رہنے والا نہیں ھے ۔ جب یہ اپنے اصل سیارے پر تھا تو وہاں اسے کھانا پکانے کا جھنجٹ نہیں اٹھانا پڑتا تھا بلکہ ہر چیز کو ڈائریکٹ غذا کیلیئے استعمال کرتا تھا۔
مزید یہ اکیلا دو پاؤں پر چلنے والا ھے جو اس کے یہاں پر ایلین ھونے کی نشانی ھے۔
نمبر آٹھ: انسان کو زمین پر رہنے کیلیے بہت نرم و گداز بستر کی ضرورت ھوتی ھے جبکہ زمین کے اصل باسیوں یعنی جانوروں کو اس طرح نرم بستر کی ضرورت نہیں ھوتی۔ یہ اس چیز کی علامت ھے کہ انسان کے اصل سیارے پر سونے اور آرام کرنے کی جگہ انتہائی نرم و نازک تھی جو اس کے جسم کی نازکی کے مطابق تھی ۔
نمبر نو: انسان زمین کے سب باسیوں سے بالکل الگ ھے لہذا یہ یہاں پر کسی بھی جانور (بندر یا چمپینزی وغیرہ) کی ارتقائی شکل نہیں ھے بلکہ اسے کسی اور سیارے سے زمین پر کوئی اور مخلوق لا کر پھینک گئی ھے ۔
انسان کو جس اصل سیارے پر تخلیق کیا گیا تھا وہاں زمین جیسا گندا ماحول نہیں تھا، اس کی نرم و نازک جلد جو زمین کے سورج کی دھوپ میں جھلس کر سیاہ ہوجاتی ہے اس کے پیدائشی سیارے کے مطابق بالکل مناسب بنائی گئی تھی ۔ یہ اتنا نازک مزاج تھا کہ زمین پر آنے کے بعد بھی اپنی نازک مزاجی کے مطابق ماحول پیدا کرنے کی کوششوں میں رھتا ھے۔جس طرح اسے اپنے سیارے پر آرام دہ اور پرتعیش بستر پر سونے کی عادت تھی وہ زمین پر آنے کے بعد بھی اسی کے لئے اب بھی کوشش کرتا ھے کہ زیادہ سے زیادہ آرام دہ زندگی گزار سکوں۔ جیسے خوبصورت قیمتی اور مضبوط محلات مکانات اسے وہاں اس کے ماں باپ کو میسر تھے وہ اب بھی انہی جیسے بنانے کی کوشش کرتا ہے ۔ جبکہ باقی سب جانور اور مخلوقات اس سے بے نیاز ہیں۔ یہاں زمین کی مخلوقات عقل سے عاری اور تھرڈ کلاس زندگی کی عادی ہیں جن کو نہ اچھا سوچنے کی توفیق ہے نہ اچھا رہنے کی اور نہ ہی امن سکون سے رھنے کی۔ انسان ان مخلوقات کو دیکھ دیکھ کر خونخوار ہوگیا۔ جبکہ اس کی اصلیت محبت فنون لطیفہ اور امن و سکون کی زندگی تھی ۔۔یہ ایک ایسا قیدی ہے جسے سزا کے طور پر تھرڈ کلاس سیارے پر بھیج دیا گیا تاکہ اپنی سزا کا دورانیہ گزار کر واپس آ جائے ۔ڈاکٹر ایلیس کا کہنا ہے کہ انسان کی عقل و شعور اور ترقی سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ایلین کے والدین کو اپنے سیارے سے زمین پر آئے ہوئے کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا ، ابھی کچھ ہزار سال ہی گزرے ہیں یہ ابھی اپنی زندگی کو اپنے پرانے سیارے کی طرح لگژری بنانے کے لئے بھرپور کوشش کر رہاہے ، کبھی گاڑیاں ایجاد کرتا ہے ، کبھی موبائل فون اگر اسے آئے ہوئے چند لاکھ بھی گزرے ہوتے تو یہ جو آج ایجادات نظر آ رہی ہیں یہ ہزاروں سال پہلے وجود میں آ چکی ہوتیں ، کیونکہ میں اور تم اتنے گئے گزرے نہیں کہ لاکھوں سال تک جانوروں کی طرح بیچارگی اور ترس کی زندگی گزارتے رہتے۔
ڈاکٹر ایلیس سِلور کی کتاب میں اس حوالے سے بہت کچھ ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس کے دلائل کو ابھی تک کوئی جھوٹا نہیں ثابت کر سکا۔۔
میں اس کے سائنسی دلائل اور مفرو ضوں پر غور کر رہا تھا۔۔ یہ کہانی ایک سائنسدان بیان کر رہا ھے یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ حقیقی داستان ہے جسے انسانوں کی ہر الہامی کتاب میں بالکل اسی طرح بیان کیا گیا ہے۔ میں اس پر اس لئے تفصیل نہیں لکھوں گا کیونکہ آپ سبھی اپنے باپ آدم ؑ اور حوا ؑ کے قصے کو اچھی طرح جانتے ہیں۔۔ سائنس اللہ کی طرف چل پڑی ہے ۔۔ سائنسدان وہ سب کہنے پر مجبور ھوگئے ہیں جو انبیاء کرام اپنی نسلوں کو بتاتے رہے تھے ۔ میں نے نسل انسانی پر لکھنا شروع کیا تھا۔ اب اس تحریر کے بعد میں اس سلسلے کو بہتر انداز میں آگے بڑھا سکوں گا۔۔
ارتقاء کے نظریات کا جنازہ اٹھ چکا ہے ۔۔ اب انسانوں کی سوچ کی سمت درست ہو رہی ھے ۔۔ یہ سیارہ ہمارا نہیں ہے ۔یہ میں نہیں کہتا بلکہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بیشمار بار بتا دیا تھا۔ اللہ پاک نے اپنی عظیم کتاب قران حکیم میں بھی بار بار لاتعداد مرتبہ یہی بتا دیا کہ اے انسانوں یہ دنیا کی زندگی تمہاری آزمائش کی جگہ ہے ۔ جہاں سے تم کو تمہارے اعمال کے مطابق سزا و جزا ملے گی ۔
عالمی یوم ماحولیات،انڈیا کی میزبانی میں
اقوام متحدہ کی جانب سے ہر سال کے5 جون کو عالمی سطح پر یوما حولیات کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔ اس سال کے عالمی یوم ماحولیات کی بہت ہی خاص بات یہ ہے کہ اس سال ہمارے ملک انڈیا کو اس عالمی یوم ماحولیات کی میزبانی کا شرف حاصل ہے۔اس لئے یہ ضروری ہے کہ میزبان ملک کی حکومت اور عوام کا ماحولیات کے ضمن میں کیا رویۂ اور کوششیں ہیں ،ان پر ایک نظر ڈالی جائے۔
ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ انسانی زندگی کا انحصار خوراک،پانی اور ہواپر ہے۔اس کے بعد ہی روٹی ،کپڑا اور مکان کا نمبر آتا ہے۔اس لئے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ہماری زندگی میں خوراک، پانی اور ہوا کی کس قدر اہمیت ہے ۔ ان میں سے کسی ایک کی بھی کمی واقع ہوتی ہے تو ہماری زندگی یقینی طور پر متاثر ہوگی۔ ہماری ہی طرح چرند و پرند کی زندگی بھی ان ہی تینوں قدرت کے انمول خزانے پر منحصر ہے ۔ اس لئے ان کا تحفظ ہر ایک انسان کا فرض ہے ۔اس فرض کا یوں تو ہر شخص کو احساس ہونا ہی چاہئے ، لیکن جو لوگ اپنی ان بنیادی ضروریات کی اہمیت اور افادیت پر توجہ نہیں دیتے ہیں ، انھیں اس فرض کا احساس کرانے کے لئے حکومت اور سماجی اداروں کا رول بھی بہت اہم اور ضروری تصور کیا گیاہے ۔ ماحولیات کے توازن برقرار رکھنے میں یقینی طور پر کسی بھی ملک کی حکومت کا بہت ہی اہم رول ہوتا ہے ۔
قدرت نے خوراک،پانی اور خوراک کا اتنا بڑا خزانہ عطا کیا ہے کہ لاکھوں برس سے انسان ان کا بھرپور استعمال کر رہا ہے ،لیکن ختم ہونے کا نام نہیں ۔لیکن ادھر گزشتہ چند دہائیوں میں فطرت اور قدرت سے انسانی چھیڑ چھاڑ ان کے تحفظ سے لاپرواہی برتی جا رہی ہے۔صارفیت ہمارے پورے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے چکا ہے ۔جس کے باعث اپنی تمام تر قدروں کو روندتے ہوئے لوگ پیسے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ۔اس بھاگ دوڑ میں انسانیت ،انسانی روایت، نسانی قدریں کتنی پامال ہو رہی ہے ، اس کا احساس ہی ختم ہو گیا ہے ۔ کھیت ،کھلیہان، جنگل،ندیاں، تالاب سب کے سب بہت شدت سے بازار واد کے شکار ہیں ۔ان کی بڑی بڑی بولی لگا کر بلڈرس کسانوں سے ان کی زمین لے کر بڑی بڑی عمارت بنا رہے ہیں ۔ جن کھیت کھلیہان میں انسانی غذا اگائی جاتی ہیں۔ان انسانی خوراک کو جلدی اور زیادہ سے زیادہ پیداوار کے لئے ان میں ڈھیر سارے کیمیکلز ملائے جاتے ہیں ،تاکہ ان کی پیداوار بہت زیادہ ہو ،جن سے زیادہ سے زیادہ دولت کمائی جائے ۔ غور کیجئے کہ دولت کی ہوس میں ایسے کیمیکلس سے پیدا ہونے والے اجناس اور دیگر پھل و سبزیاں کس قدر انسانی زندگی کے لئے مہلک ہو تی ہیں ، ان پر کوئی سنجیدگی سے سوچنے کو تیا ر نہیں ۔گاؤں اور شہروں کے قصبوں ومحلّوں کے پرانے زمانے سے موجود تالاب ، پوکھر پر ناجائز قبضہ کر ان پر عمارتیں تعمیر کی جا رہی ہیں ۔ ندیوں کے کناروں کو کوڑا کرکٹ ،طرح طرح کی غلاظتوں ، خاص طور پر بہت بھاری تعداد میں پلاسٹک (پولتھین)سے بھر کر اور ان کے غلط استعمال سے ندیاں روز بروز سکڑتی جا رہی ہیں ، یا ان کا وجود ختم ہوتا جا رہا ہے۔ sewrage تالابوں اور ندیوں میں ڈالا جا رہا ہے ۔ کیمیائی و صنعتی اخراج اور بعض جگہوں پر کارخانے کا کچّا تیل بھی ان ہی ندیوں میں بلا خوف و خطر ڈال دیا جاتاہے ۔ کوڑا کرکٹ، فضلہ ، غلازتوں اور نالوں و صنعتی اخراج کی بہتات سے برسات میں پانی کے تیز بہاؤ میں یہ سب مل کر ندی کا صاف پانی آلودہ اور زہریلے ہو جاتے ہیں ۔ جس کے سبب ان ندیوں کے پانی میں آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے اور Reoxygenation نہیں ہو نے سے Deoxygenation ہونا لازمی ہو جا تا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان waste products سے امونیم سائنائڈ،کرومیٹ اور نیپتھین جیسے زہریلے مادّے کے مضر اثرات انسان، حیوان اور بہت سارے آبی نباتات مثلاََ Fungi وغیرہ پر منفی اثرات پڑتے ہیں ۔ ایسے آلودہ پانی میں پیدا ہونے والے نباتات کلورین کی کمی کے باعث ختم ہونے لگتے ہیں ، جس سے انسان کے ساتھ ساتھ مچھلیوں اور کئی دوسرے پانی میں بسنے والے نفوس کی غذا ضائع ہو جاتی ہیں اور مچھلیاں ایسے پانی کی وجہ کر زہر آلود ہو جاتی ہیں ، ان مچھلیوں کو انسان غذا کے طور پر استعمال کرتا ہے جس میں قدرتی طور پرموجود اومیگا تھری نامی پروٹین سے جو فائدہ پہنچتا، وہ نقصان میں بدل جاتا ہے۔ پانی کی آلودگی کے سبب، طرح طرح کے زہریلے کیڑے مکوڑے اور جراثیم پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں بہت طرح کے زہریلے مادّے اور orsenic گھل کر پانی کو خطرناک حد تک زہریلا بنا دینے کی وجہ کر انسان اور حیوان کے، ایسے آلودہ پانی کے داخلی اور خارجی استعمال سے جزام،کینسرنیز یرقان اور حیضہ وغیرہ جیسے متعدد مہلک امراض سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایسے زہریلے اور آلودہ پانی کے استعمال سے اوسطََ ہر سال 22 لاکھ انسانوں کی موت واقع ہوتی ہے ۔اس طرح کے پانی سے کھیتوں کی آبپاشی سے کھیت سے پیدا ہونے والے غلّہ اور دیگر پھل و سبزیوں میں بھی خطرناک جراثیم شامل ہوجاتے ہیں ، جو انسان اور حیوان دونوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں ۔ جنگل بہت تیزی سے کٹ رہے ہیں ۔اس کے متعلق اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں تقریباََ تیرہ ملین ہیکٹر رقبے پر پھیلے جنگلات ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ 2050 ء تک جو اب بہت دور نہیں ہے ،تقریباََ 1.8 ارب انسانوں کو پانی کی قلت کا سامنا کرنا ہوگا۔ جس کا کریہہ منظر ہمارے ملک میں آئے دن خاس طور پر موسم گرما کے شروع ہوتے ہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ گاؤں دیہات کے بڑی تعداد میں لوگ کئی کئی میل دوری طئے کر اپنی ضروریات زندگی کے لئے پانی کسی طرح مہیّا کرتے ہیں ۔ بعض گاؤں ہمارے ملک میں ایسے ہیں ،جہاں کے لڑکے ، لڑکیوں کی شادی اس وجہ کر نہیں ہوتی کہ ان گاؤں میں پانی میسر نہیں ہے ۔
یہی وہ اسباب اور مسائل ہیں ،جن کے تدارک کے لئے اقوام متحدہ کی جنرل کاونسل کی میٹنگ میں 1972 ء میں 5 جون سے لے کر 16 جون تک مسلسل فکر مندی کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے عالمی سطح پر تدارک کے لئے میٹنگیں ہوتی رہیں اور لاحۂ عمل تیار کیا جاتا رہا ۔ اسی میٹنگ کے دوران ہی UNEP m ) United Nation Environment Progra)کی تشکیل عمل میں آئی ۔ جس میں یہ فیصلہ لیا گیا کہ ہر سال 5جون کو عالمی یوم ماحولیات کا انعقاد کیا جائے گا اور عوام کو خوراک،پانی اور ہوا میں بڑھتی آلودگی کے باعث ہونے والے مضر اثرات کے بارے میں بتایا جائے گا اور کس طرح ماحولیات کا تحفظ کیا جائے کہ انسان اور حیوان کی زندگی محفوظ رہے ،اس کے ذہن سازی کی جائے گی۔ اس طرح اقوام متحدہ نے اپنے اس اہم فیصلہ پر عمل درآمد کے لئے 5جون1974 ء سے ہی ہر سال عالمی یوم ماحولیات کا انعقاد ،ہر سال ایک نئے تھیم کے ساتھ اس کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ 1976 ء میں ایک اجلاس میں وزیر اعظم وقت اندرا گاندھی نے بھی شرکت کی تھی اور ماحولیات کے عدم توازن سے دنیا کے مختلف ممالک میں پڑنے والے مضر اثرات پر انھون نے ایک شاندار تقریر بھی کی تھی ۔اندرا گاندھی کی شرکت سے عاملی سطح پر ماحولیات کے تحفظ کے سلسلے میں انڈیا کا پہلا اور اہم قدم مانا جاتا ہے ۔بھارت کے لئے یقینی طور پر یہ دن خاص اہمیت کا حامل ہے ۔ اس دن کی اہمیت کا اظہار ہمارے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ سال کے 5 جون کو عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر اپنے ٹویٹر پر پیغام دیتے ہوئے کہا تھا کہ فطرت کا تحفظ آج سے نہیں ازل سے ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کا اہم حصہ رہا ہے ۔ماحولیات کے تحفظ کے تیئں ہندوستان پابند عہد ہے ۔موجودہ نسل کو آنے والی نسل سے ایک ساف اور صحت مند زمین پر رہنے کا حق چھیننے کا کوئی حق نہیں حاصل ہے ۔
اس تناظر میں انڈیا میں منعقد ہونے والے اس سال کے عالمی یوم ماحولیات کی اہمیت کافی بڑھ جاتی ہے ۔اس سال کا جو تھیم رکھا گیا ہے ، وہ ہے ’پلاسٹک آلودگی کو مات دو‘۔ یعنی اس سال حکومت، صنعت ،دیگر سماجی اور انفرادی طور پر یہ زور دینا ہے کہ وہ انسانی صحت اور ماحولیات کے مد نظر انتہائی نقصان دہ پلاسٹک کے بجائے پائیدار متبادل ذرائع کو تلاش کریں اور استعمال کریں ۔یہ بھی بتادیں کہ 1976سے1984 تک ہمارا پڑوسی ملک بنگلہ دیش کے تھیم پر کام ہوتا رہا ۔ اب اس سال انڈیا کی میزبانی اور پلاسٹک آلودگی کو مات دینے کا تھیم ، یہ دونون ہی ہمارے ملک کے لئے ایک چیلنج سے کم نہیں ۔ اس معاملے میں ذرا ایک نظر لی جائے کہ کیا صورت حال ہے ۔ دنیا میں ایک اندازے کے مطابق 500 پلاسٹک کے تھیلے استعمال میں لائے جاتے ہین ، جو سب سے زیادہ آلودگی کی وجہ بنتے ہیں ۔ ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق دنیا کے سندروں میں ہر سال 8.8 ملین پلاسٹک پر مشتمل کچڑا ڈالا جاتا ہے ۔جس میں ساٹھ فی صد اس آلودگی کا ذمہ دار انڈیا کو مانا گیا ہے ۔ انڈیا کی سب سے اہم اور مقدس ندی میں ہی ہر سال 1.2 ارب ٹن پلاسٹک اور دیگر گندگی ڈالی جاتی ہے ۔ یہ بھی عجیب اتفاق اور افسوسناک سروے سامنے آیا ہے کہ انڈیا ان چارممالک میں ہے جہاں سب سے زیادہ پلاسٹک آلودگی ہے ۔ انڈیا کے قومی آلودگی کنٹرول بورڈ کی 2015 کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے ساٹھ بڑے شہروں میں روزانہ 26 ہزار ٹن پلاسٹک پر مشتمل غلاظت پیدا ہوتا ہے ۔ورلڈ اکنامک فورم کی ایک رپورٹ یہ بھی ہے کہ اگر پلاسٹک کی آلودگی کا یہی حال رہا تو 2025 ء تک سمندروں میں مچھلیوں کے مقابلے پلاسٹک کی مقدار زیادہ ہوگی ۔
اب ایسے حالات مین انڈیا میں منعقد ہونے والے عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر پلاسٹک آلودگی کو مات دینے کے لئے ہمارا ملک کون سا ایسا نقصہ کیمیأ سامنے لاتا ہے اور دنیا کے مختلف ممالک سے آنے والے سائنس دانوں اور مندوبین کے سامنے اپنے ملک میں بڑھتی پلاسٹک آلودگی کی بابت کس طرح روشنی ڈالتا ہے ،یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا ۔ اس لئے کہ اقوام متحدہ کے انڈر سکریٹری جنرل ایرک سولہیم کے سامنے ہمارے وزیر صحت اور ماحولیات ہرش وردھن نے بڑے پُر زور طریقے سے اپنے ملک کی صدیوں پرانی روایت اور قدروں کے فلسفہ حیات کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بتا یا ہے کہ ہریالی اور صاف صفائی ہماری جڑوں مین پیوست ہے ، اس لئے انڈیا اس میدان میں ایک مثال قائم کرے گا ۔ وزیر کی اس بات سے متاثر ہوتے ہوئے ہی ایرک سولہیم اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ انڈیا عالمی یوم ماحولیات 2018 میں ہزاروں ممالک کے درمیان ایک شاندار میزبان ثابت ہوگا ۔
اب ایسے حالات میں ہمارے ملک کی بیرون ممالک اور اقوام متحدہ کے سامنے کیا اور کیسا امیج بنے گا ، یہ بہت ہی سنجیدہ سوال ہو سکتا ہے ۔ اس لئے کہ ہم دیکھتے ہیں ہمارے وزیر اعلیٰ اور ہمارے وزیر اعظم کے عوامی پروگرام کے لئے ہزاروں ایکڑ زمیں پر اگی فصل کو برباد کر دیا جاتا ہے ۔ ابھی ابھی ہمارے وزیر اعظم کے ذریعہ نو کیلو میٹر ایک سڑک کی تعمیرکے بعد عوام کو سپرد کرنے کے لئے جو روڈ شو ہوا اور اس کے بعد جس طرح روڈ کے کنارے بڑے پیمانے پر پلاسٹک کے گلاس وغیرہ نظر آئے تھے ، وہ ہماری حکومت کی سنجیدگی کا احساس تو کرا ہی دیتے ہیں ۔ آئے دن سوکھتی ندی اور تالابوں پر ناجائز قبضہ کا سلسلہ بھی حکومت کے ناک کے نیچے جاری ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ بھگوان نمأ شری شری نے اپنے مفاد میں گزشتہ برس حکومت وقت کی سرپرستی میں اپنے ایک مجمع کے لئے دہلی کے جمنا ندی تک کو نہیں بخشا اور اس پر اس طرح سے رولر چلوا کر اتنا سخت کرا دیا کہ اب اس میں کبھی پانی کی ایک بوند بھی نہیں آ پائیگی۔ پانی اور ماحولیات کے ادارے اس کے خلاف چیختے رہے، جرمانے لگاتے رہے ، لیکن اس بھگوان نمأ انسان نے اس بہت اہم انسانی مسئلہ پر کوئی توجہ نہیں دی ۔ اس طرح اب چند برسوں بعد اس جگہ بڑی بڑی عمارتوں اور مال کی تعمیر کا راستہ ہموار ہو گیا ۔
ان حالات میں مجھے خوف ہے کہ ایسے سارے سوالات اگر اٹھے تو پھر ہماری میزبان حکومت غیر ملکی مندوبین کے سامنے کیا جواب دے گی ۔
ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ انسانی زندگی کا انحصار خوراک،پانی اور ہواپر ہے۔اس کے بعد ہی روٹی ،کپڑا اور مکان کا نمبر آتا ہے۔اس لئے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ہماری زندگی میں خوراک، پانی اور ہوا کی کس قدر اہمیت ہے ۔ ان میں سے کسی ایک کی بھی کمی واقع ہوتی ہے تو ہماری زندگی یقینی طور پر متاثر ہوگی۔ ہماری ہی طرح چرند و پرند کی زندگی بھی ان ہی تینوں قدرت کے انمول خزانے پر منحصر ہے ۔ اس لئے ان کا تحفظ ہر ایک انسان کا فرض ہے ۔اس فرض کا یوں تو ہر شخص کو احساس ہونا ہی چاہئے ، لیکن جو لوگ اپنی ان بنیادی ضروریات کی اہمیت اور افادیت پر توجہ نہیں دیتے ہیں ، انھیں اس فرض کا احساس کرانے کے لئے حکومت اور سماجی اداروں کا رول بھی بہت اہم اور ضروری تصور کیا گیاہے ۔ ماحولیات کے توازن برقرار رکھنے میں یقینی طور پر کسی بھی ملک کی حکومت کا بہت ہی اہم رول ہوتا ہے ۔
قدرت نے خوراک،پانی اور خوراک کا اتنا بڑا خزانہ عطا کیا ہے کہ لاکھوں برس سے انسان ان کا بھرپور استعمال کر رہا ہے ،لیکن ختم ہونے کا نام نہیں ۔لیکن ادھر گزشتہ چند دہائیوں میں فطرت اور قدرت سے انسانی چھیڑ چھاڑ ان کے تحفظ سے لاپرواہی برتی جا رہی ہے۔صارفیت ہمارے پورے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے چکا ہے ۔جس کے باعث اپنی تمام تر قدروں کو روندتے ہوئے لوگ پیسے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ۔اس بھاگ دوڑ میں انسانیت ،انسانی روایت، نسانی قدریں کتنی پامال ہو رہی ہے ، اس کا احساس ہی ختم ہو گیا ہے ۔ کھیت ،کھلیہان، جنگل،ندیاں، تالاب سب کے سب بہت شدت سے بازار واد کے شکار ہیں ۔ان کی بڑی بڑی بولی لگا کر بلڈرس کسانوں سے ان کی زمین لے کر بڑی بڑی عمارت بنا رہے ہیں ۔ جن کھیت کھلیہان میں انسانی غذا اگائی جاتی ہیں۔ان انسانی خوراک کو جلدی اور زیادہ سے زیادہ پیداوار کے لئے ان میں ڈھیر سارے کیمیکلز ملائے جاتے ہیں ،تاکہ ان کی پیداوار بہت زیادہ ہو ،جن سے زیادہ سے زیادہ دولت کمائی جائے ۔ غور کیجئے کہ دولت کی ہوس میں ایسے کیمیکلس سے پیدا ہونے والے اجناس اور دیگر پھل و سبزیاں کس قدر انسانی زندگی کے لئے مہلک ہو تی ہیں ، ان پر کوئی سنجیدگی سے سوچنے کو تیا ر نہیں ۔گاؤں اور شہروں کے قصبوں ومحلّوں کے پرانے زمانے سے موجود تالاب ، پوکھر پر ناجائز قبضہ کر ان پر عمارتیں تعمیر کی جا رہی ہیں ۔ ندیوں کے کناروں کو کوڑا کرکٹ ،طرح طرح کی غلاظتوں ، خاص طور پر بہت بھاری تعداد میں پلاسٹک (پولتھین)سے بھر کر اور ان کے غلط استعمال سے ندیاں روز بروز سکڑتی جا رہی ہیں ، یا ان کا وجود ختم ہوتا جا رہا ہے۔ sewrage تالابوں اور ندیوں میں ڈالا جا رہا ہے ۔ کیمیائی و صنعتی اخراج اور بعض جگہوں پر کارخانے کا کچّا تیل بھی ان ہی ندیوں میں بلا خوف و خطر ڈال دیا جاتاہے ۔ کوڑا کرکٹ، فضلہ ، غلازتوں اور نالوں و صنعتی اخراج کی بہتات سے برسات میں پانی کے تیز بہاؤ میں یہ سب مل کر ندی کا صاف پانی آلودہ اور زہریلے ہو جاتے ہیں ۔ جس کے سبب ان ندیوں کے پانی میں آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے اور Reoxygenation نہیں ہو نے سے Deoxygenation ہونا لازمی ہو جا تا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان waste products سے امونیم سائنائڈ،کرومیٹ اور نیپتھین جیسے زہریلے مادّے کے مضر اثرات انسان، حیوان اور بہت سارے آبی نباتات مثلاََ Fungi وغیرہ پر منفی اثرات پڑتے ہیں ۔ ایسے آلودہ پانی میں پیدا ہونے والے نباتات کلورین کی کمی کے باعث ختم ہونے لگتے ہیں ، جس سے انسان کے ساتھ ساتھ مچھلیوں اور کئی دوسرے پانی میں بسنے والے نفوس کی غذا ضائع ہو جاتی ہیں اور مچھلیاں ایسے پانی کی وجہ کر زہر آلود ہو جاتی ہیں ، ان مچھلیوں کو انسان غذا کے طور پر استعمال کرتا ہے جس میں قدرتی طور پرموجود اومیگا تھری نامی پروٹین سے جو فائدہ پہنچتا، وہ نقصان میں بدل جاتا ہے۔ پانی کی آلودگی کے سبب، طرح طرح کے زہریلے کیڑے مکوڑے اور جراثیم پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں بہت طرح کے زہریلے مادّے اور orsenic گھل کر پانی کو خطرناک حد تک زہریلا بنا دینے کی وجہ کر انسان اور حیوان کے، ایسے آلودہ پانی کے داخلی اور خارجی استعمال سے جزام،کینسرنیز یرقان اور حیضہ وغیرہ جیسے متعدد مہلک امراض سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایسے زہریلے اور آلودہ پانی کے استعمال سے اوسطََ ہر سال 22 لاکھ انسانوں کی موت واقع ہوتی ہے ۔اس طرح کے پانی سے کھیتوں کی آبپاشی سے کھیت سے پیدا ہونے والے غلّہ اور دیگر پھل و سبزیوں میں بھی خطرناک جراثیم شامل ہوجاتے ہیں ، جو انسان اور حیوان دونوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں ۔ جنگل بہت تیزی سے کٹ رہے ہیں ۔اس کے متعلق اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں تقریباََ تیرہ ملین ہیکٹر رقبے پر پھیلے جنگلات ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ 2050 ء تک جو اب بہت دور نہیں ہے ،تقریباََ 1.8 ارب انسانوں کو پانی کی قلت کا سامنا کرنا ہوگا۔ جس کا کریہہ منظر ہمارے ملک میں آئے دن خاس طور پر موسم گرما کے شروع ہوتے ہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ گاؤں دیہات کے بڑی تعداد میں لوگ کئی کئی میل دوری طئے کر اپنی ضروریات زندگی کے لئے پانی کسی طرح مہیّا کرتے ہیں ۔ بعض گاؤں ہمارے ملک میں ایسے ہیں ،جہاں کے لڑکے ، لڑکیوں کی شادی اس وجہ کر نہیں ہوتی کہ ان گاؤں میں پانی میسر نہیں ہے ۔
یہی وہ اسباب اور مسائل ہیں ،جن کے تدارک کے لئے اقوام متحدہ کی جنرل کاونسل کی میٹنگ میں 1972 ء میں 5 جون سے لے کر 16 جون تک مسلسل فکر مندی کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے عالمی سطح پر تدارک کے لئے میٹنگیں ہوتی رہیں اور لاحۂ عمل تیار کیا جاتا رہا ۔ اسی میٹنگ کے دوران ہی UNEP m ) United Nation Environment Progra)کی تشکیل عمل میں آئی ۔ جس میں یہ فیصلہ لیا گیا کہ ہر سال 5جون کو عالمی یوم ماحولیات کا انعقاد کیا جائے گا اور عوام کو خوراک،پانی اور ہوا میں بڑھتی آلودگی کے باعث ہونے والے مضر اثرات کے بارے میں بتایا جائے گا اور کس طرح ماحولیات کا تحفظ کیا جائے کہ انسان اور حیوان کی زندگی محفوظ رہے ،اس کے ذہن سازی کی جائے گی۔ اس طرح اقوام متحدہ نے اپنے اس اہم فیصلہ پر عمل درآمد کے لئے 5جون1974 ء سے ہی ہر سال عالمی یوم ماحولیات کا انعقاد ،ہر سال ایک نئے تھیم کے ساتھ اس کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ 1976 ء میں ایک اجلاس میں وزیر اعظم وقت اندرا گاندھی نے بھی شرکت کی تھی اور ماحولیات کے عدم توازن سے دنیا کے مختلف ممالک میں پڑنے والے مضر اثرات پر انھون نے ایک شاندار تقریر بھی کی تھی ۔اندرا گاندھی کی شرکت سے عاملی سطح پر ماحولیات کے تحفظ کے سلسلے میں انڈیا کا پہلا اور اہم قدم مانا جاتا ہے ۔بھارت کے لئے یقینی طور پر یہ دن خاص اہمیت کا حامل ہے ۔ اس دن کی اہمیت کا اظہار ہمارے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ سال کے 5 جون کو عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر اپنے ٹویٹر پر پیغام دیتے ہوئے کہا تھا کہ فطرت کا تحفظ آج سے نہیں ازل سے ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کا اہم حصہ رہا ہے ۔ماحولیات کے تحفظ کے تیئں ہندوستان پابند عہد ہے ۔موجودہ نسل کو آنے والی نسل سے ایک ساف اور صحت مند زمین پر رہنے کا حق چھیننے کا کوئی حق نہیں حاصل ہے ۔
اس تناظر میں انڈیا میں منعقد ہونے والے اس سال کے عالمی یوم ماحولیات کی اہمیت کافی بڑھ جاتی ہے ۔اس سال کا جو تھیم رکھا گیا ہے ، وہ ہے ’پلاسٹک آلودگی کو مات دو‘۔ یعنی اس سال حکومت، صنعت ،دیگر سماجی اور انفرادی طور پر یہ زور دینا ہے کہ وہ انسانی صحت اور ماحولیات کے مد نظر انتہائی نقصان دہ پلاسٹک کے بجائے پائیدار متبادل ذرائع کو تلاش کریں اور استعمال کریں ۔یہ بھی بتادیں کہ 1976سے1984 تک ہمارا پڑوسی ملک بنگلہ دیش کے تھیم پر کام ہوتا رہا ۔ اب اس سال انڈیا کی میزبانی اور پلاسٹک آلودگی کو مات دینے کا تھیم ، یہ دونون ہی ہمارے ملک کے لئے ایک چیلنج سے کم نہیں ۔ اس معاملے میں ذرا ایک نظر لی جائے کہ کیا صورت حال ہے ۔ دنیا میں ایک اندازے کے مطابق 500 پلاسٹک کے تھیلے استعمال میں لائے جاتے ہین ، جو سب سے زیادہ آلودگی کی وجہ بنتے ہیں ۔ ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق دنیا کے سندروں میں ہر سال 8.8 ملین پلاسٹک پر مشتمل کچڑا ڈالا جاتا ہے ۔جس میں ساٹھ فی صد اس آلودگی کا ذمہ دار انڈیا کو مانا گیا ہے ۔ انڈیا کی سب سے اہم اور مقدس ندی میں ہی ہر سال 1.2 ارب ٹن پلاسٹک اور دیگر گندگی ڈالی جاتی ہے ۔ یہ بھی عجیب اتفاق اور افسوسناک سروے سامنے آیا ہے کہ انڈیا ان چارممالک میں ہے جہاں سب سے زیادہ پلاسٹک آلودگی ہے ۔ انڈیا کے قومی آلودگی کنٹرول بورڈ کی 2015 کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے ساٹھ بڑے شہروں میں روزانہ 26 ہزار ٹن پلاسٹک پر مشتمل غلاظت پیدا ہوتا ہے ۔ورلڈ اکنامک فورم کی ایک رپورٹ یہ بھی ہے کہ اگر پلاسٹک کی آلودگی کا یہی حال رہا تو 2025 ء تک سمندروں میں مچھلیوں کے مقابلے پلاسٹک کی مقدار زیادہ ہوگی ۔
اب ایسے حالات مین انڈیا میں منعقد ہونے والے عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر پلاسٹک آلودگی کو مات دینے کے لئے ہمارا ملک کون سا ایسا نقصہ کیمیأ سامنے لاتا ہے اور دنیا کے مختلف ممالک سے آنے والے سائنس دانوں اور مندوبین کے سامنے اپنے ملک میں بڑھتی پلاسٹک آلودگی کی بابت کس طرح روشنی ڈالتا ہے ،یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا ۔ اس لئے کہ اقوام متحدہ کے انڈر سکریٹری جنرل ایرک سولہیم کے سامنے ہمارے وزیر صحت اور ماحولیات ہرش وردھن نے بڑے پُر زور طریقے سے اپنے ملک کی صدیوں پرانی روایت اور قدروں کے فلسفہ حیات کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بتا یا ہے کہ ہریالی اور صاف صفائی ہماری جڑوں مین پیوست ہے ، اس لئے انڈیا اس میدان میں ایک مثال قائم کرے گا ۔ وزیر کی اس بات سے متاثر ہوتے ہوئے ہی ایرک سولہیم اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ انڈیا عالمی یوم ماحولیات 2018 میں ہزاروں ممالک کے درمیان ایک شاندار میزبان ثابت ہوگا ۔
اب ایسے حالات میں ہمارے ملک کی بیرون ممالک اور اقوام متحدہ کے سامنے کیا اور کیسا امیج بنے گا ، یہ بہت ہی سنجیدہ سوال ہو سکتا ہے ۔ اس لئے کہ ہم دیکھتے ہیں ہمارے وزیر اعلیٰ اور ہمارے وزیر اعظم کے عوامی پروگرام کے لئے ہزاروں ایکڑ زمیں پر اگی فصل کو برباد کر دیا جاتا ہے ۔ ابھی ابھی ہمارے وزیر اعظم کے ذریعہ نو کیلو میٹر ایک سڑک کی تعمیرکے بعد عوام کو سپرد کرنے کے لئے جو روڈ شو ہوا اور اس کے بعد جس طرح روڈ کے کنارے بڑے پیمانے پر پلاسٹک کے گلاس وغیرہ نظر آئے تھے ، وہ ہماری حکومت کی سنجیدگی کا احساس تو کرا ہی دیتے ہیں ۔ آئے دن سوکھتی ندی اور تالابوں پر ناجائز قبضہ کا سلسلہ بھی حکومت کے ناک کے نیچے جاری ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ بھگوان نمأ شری شری نے اپنے مفاد میں گزشتہ برس حکومت وقت کی سرپرستی میں اپنے ایک مجمع کے لئے دہلی کے جمنا ندی تک کو نہیں بخشا اور اس پر اس طرح سے رولر چلوا کر اتنا سخت کرا دیا کہ اب اس میں کبھی پانی کی ایک بوند بھی نہیں آ پائیگی۔ پانی اور ماحولیات کے ادارے اس کے خلاف چیختے رہے، جرمانے لگاتے رہے ، لیکن اس بھگوان نمأ انسان نے اس بہت اہم انسانی مسئلہ پر کوئی توجہ نہیں دی ۔ اس طرح اب چند برسوں بعد اس جگہ بڑی بڑی عمارتوں اور مال کی تعمیر کا راستہ ہموار ہو گیا ۔
ان حالات میں مجھے خوف ہے کہ ایسے سارے سوالات اگر اٹھے تو پھر ہماری میزبان حکومت غیر ملکی مندوبین کے سامنے کیا جواب دے گی ۔
بے لگام گھوڑا
میرے ایک دوست نے بہت گھبراہٹ میں فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کسی نے مشورہ دیا تھا کہ انڈوں کو ایک دن کے لیے نمک میں دبا کر رکھیں اور پھر دو انڈے روزانہ کھانے سے ہائی بلڈ پریشر ٹھیک ہو جائے گا لیکن مجھے تو الٹا نقصان ہوا ہے اور بلڈ پریشر بڑھنے کے ساتھ میرے جسم میں کولیسٹرول کی مقدارمیں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر یہ مشور پڑھا، لہذا میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس پر عمل کر کے فائدہ اٹھایا جائے۔ انہیں عرض کیا کہ سوشل میڈیا پر بے شمار ایسی معلومات گردش کررہی ہوتی ہیں جو مصدقہ نہیں ہوتیں اس لیے ضرورت ہوتی ہے کہ بغیر تصدیق اور تحقیق کسی بھی مشورے پر عمل نہ کیا جائے اور نہ ہی اسے آگے پھیلایا جائے۔
سوشل میڈیا ایک ایسا منہ زور گھوڑا ہے کہ جو کسی کے قابو میں نہیں اور اس بدکتے گھوڑے کے برے اثرات سے بچنے کی تدابیر کرنی چاہیے۔ صحت، مذہب، معلومات عامہ، اقبالیات، سائنس، اردو ادب غرض زندگی کا کون سا ایسا شعبہ ہے جو سوشل میڈیا کی دسترس سے باہر ہو۔ یہ ٹھیک ہے کہ بہت سی درست اور کارآمد معلومات بھی ملتی ہیں اور سوشل میڈیا سے علم آگہی کی دنیا میں کئی نئی راہیں کھلی ہیں لیکن غلط معلومات اور بے احتیاطی بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ لوگ بغیر تصدیق کرنے کے آگے بات پھیلا رہے ہوتے ہیں۔ وضعی روایات، صحابہ اکرام اور بزرگان دین سے منسوب اقوال ، دوسروں کے اشعار کو علامہ اقبال قرار دینا اور مضر صحت مشورے سوشل میڈیا میں ہر روز گردش میں ہوتے ہیں۔ مذہبی انتہا پسندی، نفرت اور اخلاق سے گری ہوئی پوسٹیں بھی عام ہیں۔ لوگوں کے مذہبی جذبات سے کھیلتے ہوئے انہیں ثواب کا لالچ دے کر پوسٹ آگے شئیر کرنے کی ترغیب دیناکیا دین کی تعلیمات ہیں۔ سوشل میڈیا کی بدولت خود رو صحافیوں کی بہتات ہے اور جو بھی چندالٹے سیدھے چند الفاظ لکھ لیتا ہے وہ صحافی بن بیٹھا ہے ۔ نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی یے لیکن ایسے نام نہاد صحافیوں میں وہ بھی مفقود ہوتی ہے۔ تحریف شدہ تحریریں اپنے نام سے شائع کرانے میں معمولی سی بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ سویڈن میں پہلی مرتبہ اسٹاک کی ترک مسجد میں اذان دینے کی جب اجازت ملی تو اس کی رپورٹ راقم کے حوالے سے ایک معروف نجی ٹی وی پر پیش کی گئی۔ حیرت کی انتہا اس وقت ہوئی جب اسی ویڈیو رپورٹ کو تحریف کرکے اس طرح سوشل میڈیا پر پیش کیا گیا کہ’’ برطانیہ کی ایک مسجد جہاں خود بخود اذان کی آواز بلند ہوتی ہے جس پر انگریز میڈیا حیران ہے‘‘۔ یا اﷲ، کیسا جھوٹ ہے لیکن لوگ سبحان اﷲ لکھ کرکے شئیر کرتے جارہے ہیں۔ اسلام کو سچا ثابت کرنے کے جھوٹی اور کمزور دلیلیں دی جاتی ہیں جن کا بعد میں الٹا نقصان ہوتا ہے۔ کسی بھی شخص کے بارے جو دل آئے لکھتے جائیں اور دوسروں کی پگڑی اچھالتے وقت ذرا سا بھی لحاظ یا شرم محسوس نہیں ہوتی۔نہ کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ خوف خدا۔ہمارے ایک دوست کو اپنے آبائی علاقہ میں فلاح و بہبود کے کاموں میں سرگرمی سے مصروف ہیں، ان کے حاسدین نے ان پر بجا الزامات لگائے جس سے ان کی بہت دل آزاری ہوئی۔ قرآن حکیم نے سختی سے کسی پر بہتان لگانے اور عزت اچھالنے سے منع کیا ہے۔ ایسا کرنے والوں کو یہ حقیقت پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ایک دن قانون مکافات عمل کا وہ خود بھی شکار ہوجائیں گے اور آخرت میں سزا الگ سے ملے گی۔
سمارٹ فون آنے سے سوشل میڈیا ایک وبائی صورت اختیار کرچکا ہے جس کا سب شکار ہوچکے ہیں۔ سمارٹ فون اور سوشل میڈیا کے دور سے قبل سویڈن میں سفر کرتے وقت یا انتظار گاہوں میں لوگوں کے ہاتھوں میں کتاب ہوتی تھی لیکن اب فون ہوتا ہے۔ بڑے تو ایک طرف رہے اب تو شیرِخوار بچے بھی سمارٹ فون کے عادی ہو چکے ہیں۔ بچے جب تنگ کرتے ہیں ماں باپ اس کے ہاتھوں میں فون گھما دیتے ہیں اور پھر بچہ چھوڑنے کا نام نہیں لیتا۔ میرا اپنا نواسہ ابراہیم بھی ان میں شامل ہیں۔سوشل میڈیا پر جو کچھ ایک عام آدمی تک پہنچتا ہے اسے محض دیکھنے کے لیے پورا دن بھی کم ہے اوربالکل فارغ شخص بھی اس سے عہدہ براہ نہیں ہوسکتا ہے۔ پیغام رسانی کے جو پروگرام بنے ہیں ان کا فائدہ اپنی جگہ لیکن وہ درد سر بنتے جارہے ہیں۔ واٹس اپ پر اتنے زیادہ پیغامات آتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ لوگ اتنا بھی تکلف نہیں کرتے کہ کسی گروپ میں شامل کرنے سے قبل اخلاقی طور پر اجازت ہی لے لیں۔ ایک پیغام مختلف لوگوں اور گروپس سے اتنی بار آتا ہے کہ آدمی زچ آجاتا ہے۔ اگرکوئی خود لکھ کر اپنے خیالات بھیجے تو اس میں کچھ انفرادیت بھی ہوگی لیکن یہاں تو copy اور paste سے کام چلایا جاتا ہے یا پھر share کا بٹن دبایا جاتا ہے۔ لمبی لمبی ویڈیو اور طویل عبارت والے پیغامات کون پڑھ سکتا ہے۔ کئی لوگ بس اس دھن مگن رہتے ہیں کہ زہادہ سے LIKE ملیں اور ان کے قدردان بھی کچھ ایسے ہی ہوتے ہیں کہ پڑھے یا ویڈیو دیکھے جھٹ سے LIKE کا انگوٹھا لگا دیتے ہیں۔ دور حاضر میں سوشل میڈیا اب ضرورت بن چکا ہے اور باوجود اس کی کئی خرابیوں کے اس کے فوائد بے شمار ہیں۔ مدتوں سے جن دوستوں کی خبر نہیں تھی، فیس بک نے نہ صرف تلاش کردیئے بلکہ ان سے مسلسل رابطہ بہت خوش کن ہے۔ فوری پیغام رسانی ، معلومات اور اہم دستاویزات کی سرعت کے ساتھ ترسیل کے لیے سوشل میڈیا سے بہتر کوئی بھی نہیں اور وہ بالکل مفت۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس میں توازن لایا جائے اور اسے غیر ضروری مقاصد اور وقت کے ضیائع کا باعث نہ ہو۔کوشش ضرور کرنی چاہیے اگرچہ سوشل میڈیا کے عادی افراد کے لیے یہ کوشش کوئی آسان کام نہیں اور پھراس عادت سے گھر میں نقص امن کا بھی شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
سوشل میڈیا ایک ایسا منہ زور گھوڑا ہے کہ جو کسی کے قابو میں نہیں اور اس بدکتے گھوڑے کے برے اثرات سے بچنے کی تدابیر کرنی چاہیے۔ صحت، مذہب، معلومات عامہ، اقبالیات، سائنس، اردو ادب غرض زندگی کا کون سا ایسا شعبہ ہے جو سوشل میڈیا کی دسترس سے باہر ہو۔ یہ ٹھیک ہے کہ بہت سی درست اور کارآمد معلومات بھی ملتی ہیں اور سوشل میڈیا سے علم آگہی کی دنیا میں کئی نئی راہیں کھلی ہیں لیکن غلط معلومات اور بے احتیاطی بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ لوگ بغیر تصدیق کرنے کے آگے بات پھیلا رہے ہوتے ہیں۔ وضعی روایات، صحابہ اکرام اور بزرگان دین سے منسوب اقوال ، دوسروں کے اشعار کو علامہ اقبال قرار دینا اور مضر صحت مشورے سوشل میڈیا میں ہر روز گردش میں ہوتے ہیں۔ مذہبی انتہا پسندی، نفرت اور اخلاق سے گری ہوئی پوسٹیں بھی عام ہیں۔ لوگوں کے مذہبی جذبات سے کھیلتے ہوئے انہیں ثواب کا لالچ دے کر پوسٹ آگے شئیر کرنے کی ترغیب دیناکیا دین کی تعلیمات ہیں۔ سوشل میڈیا کی بدولت خود رو صحافیوں کی بہتات ہے اور جو بھی چندالٹے سیدھے چند الفاظ لکھ لیتا ہے وہ صحافی بن بیٹھا ہے ۔ نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی یے لیکن ایسے نام نہاد صحافیوں میں وہ بھی مفقود ہوتی ہے۔ تحریف شدہ تحریریں اپنے نام سے شائع کرانے میں معمولی سی بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ سویڈن میں پہلی مرتبہ اسٹاک کی ترک مسجد میں اذان دینے کی جب اجازت ملی تو اس کی رپورٹ راقم کے حوالے سے ایک معروف نجی ٹی وی پر پیش کی گئی۔ حیرت کی انتہا اس وقت ہوئی جب اسی ویڈیو رپورٹ کو تحریف کرکے اس طرح سوشل میڈیا پر پیش کیا گیا کہ’’ برطانیہ کی ایک مسجد جہاں خود بخود اذان کی آواز بلند ہوتی ہے جس پر انگریز میڈیا حیران ہے‘‘۔ یا اﷲ، کیسا جھوٹ ہے لیکن لوگ سبحان اﷲ لکھ کرکے شئیر کرتے جارہے ہیں۔ اسلام کو سچا ثابت کرنے کے جھوٹی اور کمزور دلیلیں دی جاتی ہیں جن کا بعد میں الٹا نقصان ہوتا ہے۔ کسی بھی شخص کے بارے جو دل آئے لکھتے جائیں اور دوسروں کی پگڑی اچھالتے وقت ذرا سا بھی لحاظ یا شرم محسوس نہیں ہوتی۔نہ کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ خوف خدا۔ہمارے ایک دوست کو اپنے آبائی علاقہ میں فلاح و بہبود کے کاموں میں سرگرمی سے مصروف ہیں، ان کے حاسدین نے ان پر بجا الزامات لگائے جس سے ان کی بہت دل آزاری ہوئی۔ قرآن حکیم نے سختی سے کسی پر بہتان لگانے اور عزت اچھالنے سے منع کیا ہے۔ ایسا کرنے والوں کو یہ حقیقت پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ایک دن قانون مکافات عمل کا وہ خود بھی شکار ہوجائیں گے اور آخرت میں سزا الگ سے ملے گی۔
سمارٹ فون آنے سے سوشل میڈیا ایک وبائی صورت اختیار کرچکا ہے جس کا سب شکار ہوچکے ہیں۔ سمارٹ فون اور سوشل میڈیا کے دور سے قبل سویڈن میں سفر کرتے وقت یا انتظار گاہوں میں لوگوں کے ہاتھوں میں کتاب ہوتی تھی لیکن اب فون ہوتا ہے۔ بڑے تو ایک طرف رہے اب تو شیرِخوار بچے بھی سمارٹ فون کے عادی ہو چکے ہیں۔ بچے جب تنگ کرتے ہیں ماں باپ اس کے ہاتھوں میں فون گھما دیتے ہیں اور پھر بچہ چھوڑنے کا نام نہیں لیتا۔ میرا اپنا نواسہ ابراہیم بھی ان میں شامل ہیں۔سوشل میڈیا پر جو کچھ ایک عام آدمی تک پہنچتا ہے اسے محض دیکھنے کے لیے پورا دن بھی کم ہے اوربالکل فارغ شخص بھی اس سے عہدہ براہ نہیں ہوسکتا ہے۔ پیغام رسانی کے جو پروگرام بنے ہیں ان کا فائدہ اپنی جگہ لیکن وہ درد سر بنتے جارہے ہیں۔ واٹس اپ پر اتنے زیادہ پیغامات آتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ لوگ اتنا بھی تکلف نہیں کرتے کہ کسی گروپ میں شامل کرنے سے قبل اخلاقی طور پر اجازت ہی لے لیں۔ ایک پیغام مختلف لوگوں اور گروپس سے اتنی بار آتا ہے کہ آدمی زچ آجاتا ہے۔ اگرکوئی خود لکھ کر اپنے خیالات بھیجے تو اس میں کچھ انفرادیت بھی ہوگی لیکن یہاں تو copy اور paste سے کام چلایا جاتا ہے یا پھر share کا بٹن دبایا جاتا ہے۔ لمبی لمبی ویڈیو اور طویل عبارت والے پیغامات کون پڑھ سکتا ہے۔ کئی لوگ بس اس دھن مگن رہتے ہیں کہ زہادہ سے LIKE ملیں اور ان کے قدردان بھی کچھ ایسے ہی ہوتے ہیں کہ پڑھے یا ویڈیو دیکھے جھٹ سے LIKE کا انگوٹھا لگا دیتے ہیں۔ دور حاضر میں سوشل میڈیا اب ضرورت بن چکا ہے اور باوجود اس کی کئی خرابیوں کے اس کے فوائد بے شمار ہیں۔ مدتوں سے جن دوستوں کی خبر نہیں تھی، فیس بک نے نہ صرف تلاش کردیئے بلکہ ان سے مسلسل رابطہ بہت خوش کن ہے۔ فوری پیغام رسانی ، معلومات اور اہم دستاویزات کی سرعت کے ساتھ ترسیل کے لیے سوشل میڈیا سے بہتر کوئی بھی نہیں اور وہ بالکل مفت۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس میں توازن لایا جائے اور اسے غیر ضروری مقاصد اور وقت کے ضیائع کا باعث نہ ہو۔کوشش ضرور کرنی چاہیے اگرچہ سوشل میڈیا کے عادی افراد کے لیے یہ کوشش کوئی آسان کام نہیں اور پھراس عادت سے گھر میں نقص امن کا بھی شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
اپنی دنیا کو سرسبز بنائیں
اس دنیا میں موسموں کی تبدیلی اور انسانی زندگی میں ہونے والے ردوبدل نے یکسر یہ سوچنے پر مجبور کردیاہے ۔یہ اس قدر دن بہ دن موسموں کا بدلنا،انسان کا زمین پر جینا دوبھر ہوتاچلاجارہاہے ۔آخر ماجراکیاہے ۔
قارئین کرام آئیے اس معمہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
نظام شمسی میں ہمارے سیارے کو ایک منفرد مقام حاصل ہے کہ صرف اسی پر زندگی اپنی گو نا گوں صفات کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ خلا سے کرۂ ارض کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ دنیا بڑی حسین نظر آتی ہے کروڑوں سال پہلے جب زندگی نے اس سر زمین پر پہلی انگڑائی لی تھی تو یہ ایسی نہ تھی وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ہمہ انواع و اقسام کے جانور اور پودے جنم لیتے گئے اور اس کے حسن میں اضافہ کرتے گئے اس وقت فطرت کی گود میں پلنے والا انسان بڑا نرم گو اور قطعی بے ضرر تھا۔ فطرت سے اس کا گہرا اور قریبی رشتہ تھا۔ قدرت کی عطا کردہ نعمتوں کو وہ بیش بہا عطیہ جان کر استعمال ضرور کرتا تھا مگر اس کے استحصال اور اس نظام میں مداخلت کا خیال کبھی نہیں آیا کہ وہ ماحول کا ایک لازمی عنصر بن کر زندگی گذارتا تھا۔ گھنے جنگل ، اونچے اونچے پہاڑ، سر سبز مرغزار، اٹھلاتی بل کھاتی ندیاں ، گنگناتے ہوئے جھرنے، شور مچاتے ہوئے آبشار قسم ہا قسم کے چرند و درند، خوبصورت رنگوں اور دلنشین آوازوں والے پرند، سرسبز و شاداب درخت، رنگ برنگے پھول اس کے دن بھر کے جسمانی تھکن اور ذہنی کلفتوں کو دور کرنے کا بڑا ذریعہ تھے۔
قارئین :جوں جوں اپنے ارتقائی مراحل سے گزرتارہا۔اس زمین کے سینے پر موسمی تغیرہوتارہا۔وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے جنگلات کے خاتمہ سے ایک طرف قدرتی توازن برقرار نہ رہ سکا جس سے موسم متاثر ہوئے جس کا لامحالہ اثر خود انسان کی زندگی پر پڑا۔فضا جو کہ بڑی حد تک پاک صاف ہوا کرتی تھی ۔وہ آلودہ ہوئی ۔ گنجان بستیوں سے گندے پانی اور انسانی فضلہ کے نکاس ،گھڑگھڑاتی مشینوں ، دھواں اگلتی چمنیوں اور حمل و نقل کے ذرائع نے روز افزوں ترقی نے ہوا اور پانی کو آلودہ کیا ۔ انسانی اور صنعتی فاضلات کو ٹھکانے لگانے کے لئے انسان کو دریا اور سمندر کے علاوہ دوسرا ٹھکانہ نظر نہیں آیا۔ پانی کی آلودگی نے مچھلیوں سمیت بہت سے آبی جانوروں کی نسل کو خطرہ سے قریب کیا ہوا اور پانی کی آلودگی کا اثر پرندوں پر بھی پڑا۔ اور اس طرح قدرت میں موجود قدرتی غذائی زنجیر متاثر ہوئی۔
قارئین :تب کیا پچھتائے جب چڑیا چک گئیں کھیت ۔برسوں تک جنگلاتی دولت کی لوٹ کھسوٹ کے بعد انسانوں کو اس کا احساس اس وقت ہوا جب کہ خوداس کی زندگی اس کی معیشت متاثر ہوئی ۔ موسموں کی باقاعدگی متاثر ہوئی ۔ خشک سالی، قحط سالی اور سیلاب عالمی مسئلے بن گئے ۔اب سر پکڑ بیٹھ گیا انسان کہ کس انجام سے گزرنا پڑے گا۔
کتنی بے دردی کے ساتھ اس انسان نے درختوں کو کاٹنا شروع کیا ۔کبھی پلٹ کے بھی نہیں سوچا۔یہ درخت اس کائنات میں اس انسان کی زندگی کے لیے کس قدر مرکزی کردار اداکرتاہے ۔بلکہ اس کی زندگی کے تارے ان درختوں کے کئی پہلووں سے جڑے ہوئے ہیں ۔
ہم اچھی طرح جانے ہیں کہ اس کائنات میں ذی روح و جانداروں کے لیے آلودگی سے پاک ماحول ہے ۔ آب و ہوا اور ماحول کو آلودہ کرنے والی چیزیں ہر زمانہ میں رہی ہیں ، خود حضرت انسان سے نکلنے والا فضلہ گھریلو کوڑا کرکٹ ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنتا ہے، لیکن جدید صنعتی انقلاب نے جہاں مختلف شعبہ ہائے حیات میں انسان کو بام عروج پر پہونچا دیا وہیں آب و ہوا اور ماحول کو آلودہ کرنے والی نت نئی شکلیں پیدا کردیں، فیکٹریوں اور مختلف کارخانوں سے خارج ہونے والے فضلات اور موٹر گاڑیوں سے نکلنے والے دھویں نے ماحولیاتی آلودگی میں بے پناہ اضافہ کردیا ہے ، بڑے شہروں میں صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات کے سبب فضا ہمیشہ گرد آلود رہتی ہے ۔موجودہ دور میں کثرتِ امراض کا ایک اہم سبب ماحولیاتی آلودگی ہے، آلودہ ماحول پراگندہ آب وہوا اور بڑھتی ہوئی کثافت عصر حاضر کا ایک گم بھیر مسئلہ بنتی جارہی ہے، چنانچہ اس مسئلے کے حل کے لئے دنیا کے بڑے ممالک عالمی سیمنار منعقد کرتے ہیں، نیز عمومی بیدار شعوری کے لئے دنیا بھر میں عالمی یوم تحفظ ماحولیات منایا جاتا ہے۔
تادم بیان (جون 2018)دنیا میں ماحولیات آلودگی کے حوالے سے الیکٹرونک وپرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیاپر شعور و آگاہی کے لیے کمپین جاری ہیں ۔
قارئین آئیے !!!اب ہم حل کی جانب بڑھتے ہیں ۔
ماحولیاتی آلودگی سے تحفظ اور انسان کو صاف و شفاف ہوا فراہم کرنے والے تمام ہی ذرائع میں ایک اہم ذریعہ درخت اور درختوں سے بھرے گھنے جنگلات ہیں۔آئیے دین فطرت سے اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔آپ اگر باریک بینی سے قرآن مجید کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگاکہ خالق کائنات و مالک عرض و سموات نے درختوں اور نباتات کے نظام کو اﷲ نے اپنی رحمت قرار دیا ہے۔
قرآن مجید میں اﷲ عزوجل نے ارشاد فرمایا:
ہُوَالَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآ ِ مَآء ً لَّکُمْ مِّنْہُ شَرَابٌ وَّمِنْہُ شَجَرٌ فِیْہِ تُسِیْمُوْنَ ()
ترجمہ ٔ کنزالایمان :’’وہی ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا اس سے تمہارا پینا ہے اور اس سے درخت ہیں جن سے چَراتے ہو ۔‘‘
پھر ارشاد فرمایا:
یُنْبِتُ لَکُمْ بِہِ الزَّرْعَ وَالزَّیْتُوْنَ وَ النَّخِیْلَ وَ الْاَعْنٰبَ وَ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ ()
ترجمہ ٔ کنزالایمان :’’اس پانی سے تمہارے لئے کھیتی اگاتا ہے اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل بیشک اس میں نشانی ہے دھیان کرنے والوں ‘‘
سبحان اﷲ :ان سے جانوروں کو غذا حاصل ہوتی ہے اور ان کے پھلوں اور غلہ سے انسان بھی اپنی غذائی ضروریات کی تکمیل کرتے ہیں۔
اس کتاب مبین میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَ اَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُوْنَ ()(سورۃ النحل ۔آیت:۶۸)
ترجمہ ٔ کنزالایمان :’’اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی کو الہام کیا کہ پہاڑوں میں گھر بنا اور درختوں میں اور چھتوں میں‘‘۔
دنیا کا وہ کونسامسئلہ ہے جس کا حل کتاب مبین میں حل موجود نہیں وہ کونسا مرحلہ ہے جس میں دستور حیات ہمارا رہبر نہیں ۔
قرآن مجید نے ارشاد فرمایا:وَشَجَرَۃً تَخْرُجُ مِن طُورِ سَیْنَاء تَنبُتُ بِالدُّہْنِ وَصِبْغٍ لِّلْآکِلِیْنَ. (سورۃ المؤمنون،آیت:۲۰)
ترجمہ ٔ کنزالایمان :اور وہ پیڑ پیدا کیا کہ طور سینا سے نکلتا ہے ۔لے کر اگتا ہے تیل اور کھانے والوں کے لئے سالن ۔
یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ زَیْتُوْنَۃٍ لَّا شَرْقِیَّۃٍ وَّلَا غَرْبِیَّۃ
ترجمہ ٔ کنزالایمان : برکت والے پیڑ زیتون سے جو نہ پورب کا نہ پچھم کا۔
قارئین کرام :آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ یہ پودے ،یہ پھول کلیاں ،یہ گھنے ہرے بھرے جنگلات ہماری زندگی میں کتنی بڑی خوشیوں ،راحتوں و تسکین کا باعث ہیں ۔
لیکن ایک ہم ہیں کہ بے دردی کے ساتھ ان درختوں کو ختم کرتے چلے جارہے ہیں ۔جس کا نتیجہ یہ نکلاکہ طرح کے امراض ہمارا مقدر بن گئے ۔اُٹھیے اور اپنے حصے کا ایک پودا لگادیجیے ۔اپنی دنیا کو سرسبز و شاداب رکھئے ۔شجرکاری مہم کو عام کیجئے ۔
بہت سے جانور سبزی خور ہوتے ہیں۔ ان سبزی خور جانوروں کو انسان اور دیگر جاندار کھاتے ہیں اس طرح درخت، پودوں کے ذریعے خوراک کی ایک زنجیر وجود میں آتی ہے ۔ اس کے علاوہ انسان ہوں یا جانور، سبھی کو زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کی اشد ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ آکسیجن درختوں، پودوں کے سوا اور کہیں سے نہیں ملتی ۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب سے انسان نے دنیا میں آنکھ کھولی ، درخت اس کی اہم ترین ضروریات میں شامل رہے ہیں۔ آج ہمارے پاس درخت گھٹتے جا رہے ہیں اس لیے ضروت اس امر کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں تاکہ زندگی اسی طرح رواں دواں رہے۔
قارئین کرام آئیے اس معمہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
نظام شمسی میں ہمارے سیارے کو ایک منفرد مقام حاصل ہے کہ صرف اسی پر زندگی اپنی گو نا گوں صفات کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ خلا سے کرۂ ارض کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ دنیا بڑی حسین نظر آتی ہے کروڑوں سال پہلے جب زندگی نے اس سر زمین پر پہلی انگڑائی لی تھی تو یہ ایسی نہ تھی وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ہمہ انواع و اقسام کے جانور اور پودے جنم لیتے گئے اور اس کے حسن میں اضافہ کرتے گئے اس وقت فطرت کی گود میں پلنے والا انسان بڑا نرم گو اور قطعی بے ضرر تھا۔ فطرت سے اس کا گہرا اور قریبی رشتہ تھا۔ قدرت کی عطا کردہ نعمتوں کو وہ بیش بہا عطیہ جان کر استعمال ضرور کرتا تھا مگر اس کے استحصال اور اس نظام میں مداخلت کا خیال کبھی نہیں آیا کہ وہ ماحول کا ایک لازمی عنصر بن کر زندگی گذارتا تھا۔ گھنے جنگل ، اونچے اونچے پہاڑ، سر سبز مرغزار، اٹھلاتی بل کھاتی ندیاں ، گنگناتے ہوئے جھرنے، شور مچاتے ہوئے آبشار قسم ہا قسم کے چرند و درند، خوبصورت رنگوں اور دلنشین آوازوں والے پرند، سرسبز و شاداب درخت، رنگ برنگے پھول اس کے دن بھر کے جسمانی تھکن اور ذہنی کلفتوں کو دور کرنے کا بڑا ذریعہ تھے۔
قارئین :جوں جوں اپنے ارتقائی مراحل سے گزرتارہا۔اس زمین کے سینے پر موسمی تغیرہوتارہا۔وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے جنگلات کے خاتمہ سے ایک طرف قدرتی توازن برقرار نہ رہ سکا جس سے موسم متاثر ہوئے جس کا لامحالہ اثر خود انسان کی زندگی پر پڑا۔فضا جو کہ بڑی حد تک پاک صاف ہوا کرتی تھی ۔وہ آلودہ ہوئی ۔ گنجان بستیوں سے گندے پانی اور انسانی فضلہ کے نکاس ،گھڑگھڑاتی مشینوں ، دھواں اگلتی چمنیوں اور حمل و نقل کے ذرائع نے روز افزوں ترقی نے ہوا اور پانی کو آلودہ کیا ۔ انسانی اور صنعتی فاضلات کو ٹھکانے لگانے کے لئے انسان کو دریا اور سمندر کے علاوہ دوسرا ٹھکانہ نظر نہیں آیا۔ پانی کی آلودگی نے مچھلیوں سمیت بہت سے آبی جانوروں کی نسل کو خطرہ سے قریب کیا ہوا اور پانی کی آلودگی کا اثر پرندوں پر بھی پڑا۔ اور اس طرح قدرت میں موجود قدرتی غذائی زنجیر متاثر ہوئی۔
قارئین :تب کیا پچھتائے جب چڑیا چک گئیں کھیت ۔برسوں تک جنگلاتی دولت کی لوٹ کھسوٹ کے بعد انسانوں کو اس کا احساس اس وقت ہوا جب کہ خوداس کی زندگی اس کی معیشت متاثر ہوئی ۔ موسموں کی باقاعدگی متاثر ہوئی ۔ خشک سالی، قحط سالی اور سیلاب عالمی مسئلے بن گئے ۔اب سر پکڑ بیٹھ گیا انسان کہ کس انجام سے گزرنا پڑے گا۔
کتنی بے دردی کے ساتھ اس انسان نے درختوں کو کاٹنا شروع کیا ۔کبھی پلٹ کے بھی نہیں سوچا۔یہ درخت اس کائنات میں اس انسان کی زندگی کے لیے کس قدر مرکزی کردار اداکرتاہے ۔بلکہ اس کی زندگی کے تارے ان درختوں کے کئی پہلووں سے جڑے ہوئے ہیں ۔
ہم اچھی طرح جانے ہیں کہ اس کائنات میں ذی روح و جانداروں کے لیے آلودگی سے پاک ماحول ہے ۔ آب و ہوا اور ماحول کو آلودہ کرنے والی چیزیں ہر زمانہ میں رہی ہیں ، خود حضرت انسان سے نکلنے والا فضلہ گھریلو کوڑا کرکٹ ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنتا ہے، لیکن جدید صنعتی انقلاب نے جہاں مختلف شعبہ ہائے حیات میں انسان کو بام عروج پر پہونچا دیا وہیں آب و ہوا اور ماحول کو آلودہ کرنے والی نت نئی شکلیں پیدا کردیں، فیکٹریوں اور مختلف کارخانوں سے خارج ہونے والے فضلات اور موٹر گاڑیوں سے نکلنے والے دھویں نے ماحولیاتی آلودگی میں بے پناہ اضافہ کردیا ہے ، بڑے شہروں میں صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات کے سبب فضا ہمیشہ گرد آلود رہتی ہے ۔موجودہ دور میں کثرتِ امراض کا ایک اہم سبب ماحولیاتی آلودگی ہے، آلودہ ماحول پراگندہ آب وہوا اور بڑھتی ہوئی کثافت عصر حاضر کا ایک گم بھیر مسئلہ بنتی جارہی ہے، چنانچہ اس مسئلے کے حل کے لئے دنیا کے بڑے ممالک عالمی سیمنار منعقد کرتے ہیں، نیز عمومی بیدار شعوری کے لئے دنیا بھر میں عالمی یوم تحفظ ماحولیات منایا جاتا ہے۔
تادم بیان (جون 2018)دنیا میں ماحولیات آلودگی کے حوالے سے الیکٹرونک وپرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیاپر شعور و آگاہی کے لیے کمپین جاری ہیں ۔
قارئین آئیے !!!اب ہم حل کی جانب بڑھتے ہیں ۔
ماحولیاتی آلودگی سے تحفظ اور انسان کو صاف و شفاف ہوا فراہم کرنے والے تمام ہی ذرائع میں ایک اہم ذریعہ درخت اور درختوں سے بھرے گھنے جنگلات ہیں۔آئیے دین فطرت سے اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔آپ اگر باریک بینی سے قرآن مجید کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگاکہ خالق کائنات و مالک عرض و سموات نے درختوں اور نباتات کے نظام کو اﷲ نے اپنی رحمت قرار دیا ہے۔
قرآن مجید میں اﷲ عزوجل نے ارشاد فرمایا:
ہُوَالَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآ ِ مَآء ً لَّکُمْ مِّنْہُ شَرَابٌ وَّمِنْہُ شَجَرٌ فِیْہِ تُسِیْمُوْنَ ()
ترجمہ ٔ کنزالایمان :’’وہی ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا اس سے تمہارا پینا ہے اور اس سے درخت ہیں جن سے چَراتے ہو ۔‘‘
پھر ارشاد فرمایا:
یُنْبِتُ لَکُمْ بِہِ الزَّرْعَ وَالزَّیْتُوْنَ وَ النَّخِیْلَ وَ الْاَعْنٰبَ وَ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ ()
ترجمہ ٔ کنزالایمان :’’اس پانی سے تمہارے لئے کھیتی اگاتا ہے اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل بیشک اس میں نشانی ہے دھیان کرنے والوں ‘‘
سبحان اﷲ :ان سے جانوروں کو غذا حاصل ہوتی ہے اور ان کے پھلوں اور غلہ سے انسان بھی اپنی غذائی ضروریات کی تکمیل کرتے ہیں۔
اس کتاب مبین میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَ اَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُوْنَ ()(سورۃ النحل ۔آیت:۶۸)
ترجمہ ٔ کنزالایمان :’’اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی کو الہام کیا کہ پہاڑوں میں گھر بنا اور درختوں میں اور چھتوں میں‘‘۔
دنیا کا وہ کونسامسئلہ ہے جس کا حل کتاب مبین میں حل موجود نہیں وہ کونسا مرحلہ ہے جس میں دستور حیات ہمارا رہبر نہیں ۔
قرآن مجید نے ارشاد فرمایا:وَشَجَرَۃً تَخْرُجُ مِن طُورِ سَیْنَاء تَنبُتُ بِالدُّہْنِ وَصِبْغٍ لِّلْآکِلِیْنَ. (سورۃ المؤمنون،آیت:۲۰)
ترجمہ ٔ کنزالایمان :اور وہ پیڑ پیدا کیا کہ طور سینا سے نکلتا ہے ۔لے کر اگتا ہے تیل اور کھانے والوں کے لئے سالن ۔
یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ زَیْتُوْنَۃٍ لَّا شَرْقِیَّۃٍ وَّلَا غَرْبِیَّۃ
ترجمہ ٔ کنزالایمان : برکت والے پیڑ زیتون سے جو نہ پورب کا نہ پچھم کا۔
قارئین کرام :آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ یہ پودے ،یہ پھول کلیاں ،یہ گھنے ہرے بھرے جنگلات ہماری زندگی میں کتنی بڑی خوشیوں ،راحتوں و تسکین کا باعث ہیں ۔
لیکن ایک ہم ہیں کہ بے دردی کے ساتھ ان درختوں کو ختم کرتے چلے جارہے ہیں ۔جس کا نتیجہ یہ نکلاکہ طرح کے امراض ہمارا مقدر بن گئے ۔اُٹھیے اور اپنے حصے کا ایک پودا لگادیجیے ۔اپنی دنیا کو سرسبز و شاداب رکھئے ۔شجرکاری مہم کو عام کیجئے ۔
بہت سے جانور سبزی خور ہوتے ہیں۔ ان سبزی خور جانوروں کو انسان اور دیگر جاندار کھاتے ہیں اس طرح درخت، پودوں کے ذریعے خوراک کی ایک زنجیر وجود میں آتی ہے ۔ اس کے علاوہ انسان ہوں یا جانور، سبھی کو زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کی اشد ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ آکسیجن درختوں، پودوں کے سوا اور کہیں سے نہیں ملتی ۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب سے انسان نے دنیا میں آنکھ کھولی ، درخت اس کی اہم ترین ضروریات میں شامل رہے ہیں۔ آج ہمارے پاس درخت گھٹتے جا رہے ہیں اس لیے ضروت اس امر کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں تاکہ زندگی اسی طرح رواں دواں رہے۔
دِلوں کی ترجمانی کرنے والا حوصلہ مند شاعر: جمیل انصاری
عہد حاضر میں مسجد و میناروں اور ادب کے گہوارہ شہرما لیگاؤں میں اردو ادب میں معیاری تحقیقی کام ہورہا ہے ، کہیں ادبی نشستیں ،مشاعرے،تو کہیں نئی ادبی کتابوں کا اجراء،یہی وجہ ہے کہ شہر میں اردوادب کے نئے نئے گوشے بھی سامنے آرہے ہیں یہ اردو زبان کے فروغ کے لئے حوصلہ افزا بات ہے۔با لکل اسی طرح سے محترم جمیل انصاری صاحب کا مجموعہ کلام’بذاتِ خود‘اِس بات کا غماز ہے کہ موصوف اپنی گوناں گوں مصروفیات کے دوران بھی شعر و سخن کے پودے کی آبیاری خاموشی سے کرتے رہے۔ واقعی تخلیق ہو یا تحقیق اس کا کتابی صورت میں تشکیل پانا کئی صبر آزما اور مشکل مراحل کا متقاضی ہوتا ہے تاہم کتاب کے تشکیل پا جانے کے بعد اگر قارئین سے کتاب کا رشتہ جڑ جائے تو اس تخلیق کے خالق کو اپنی تمام محنت وصول ہو جاتی ہے۔ اِس بارمحترم جمیل انصاری صاحب نے ’بذاتِ خود‘ یہ باور کرایا کہ ان کی حسیات کا دیار کہیں بھی اور کسی بھی سطح کا ہو، شاعراپنی لگن کی بنیاد پر روحِ عصر کی اُس جہت کو بھی چھو آنے کا سہار رکھتے ہیں۔موصوف کا یہ پہلا مجموعہ کلام ہے لیکن یہ کسی نو مشق شاعر کی کتاب نہیں ہے۔ جناب جمیل انصاری صاحب کی اگرچہ مقامی طور پر ان کی خاطر خواہ پذیرائی ضرور ہوئی لیکن اتنی نہیں جتنی کے وہ مستحق ہیں۔کیونکہ موصوف ادبی سیاست اور ریاکاری ،دکھلاوے،نام ونمود شہرت سے اجتناب کرتے ہیں۔بہرحال ، ان کی شاعری اصل انسانی جذبات کی شاعری ہے۔ ایک ایسے دردمند انسان کی جس کے لاتعداد خواب ہوں، اگرچہ ادھورے رہ گئے ہوں، موصوف کے کلام کا مطالعہ کرنے پر آپ کو ضرور یہ احساس ہوگا کہ لگی لپٹی کے بغیر جو انھوں نے محسوس کیا ہے، بے لگام کہہ دیا ہے۔واقعی اس مجموعے سے کافی کہنہ مشقی ظاہر ہوتی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ شاعر نے کلاسیکی ادب کابھی غائر مطالعہ کیا ہے۔ ۔کلام کی عمدگی کا ثبوت ان کے وہ اشعار بخوبی دیتے ہیں جو کتاب کے شروع میں دیئے گئے ہیں،جن میں سرورق کا ہی شعر دیکھ لیں۔۔
بہت مصروف لمحوں میں جو یادیں بھی نہیں آتیں
چلی آتی ہیں تنہائی میں وہ یادیں بذات ِخود
جناب جمیل انصاری نے غزل میں نت نئے موضوعات شامل کیے اور وسعت الفاظ کو ایک انوکھی جگہ دی اور اپنی شاعری کو ایسا ہمہ گیر بنایا کہ ان کی ذات بھی ہمہ شخصیت کی حامل ہو گئی جس سے ضرور مستقبل میں غزل کی دنیا میں جمیل انصاری کا نام ایک خوبصورت امتزاج کا مالک بنے گا۔جناب جمیل انصاری کے مجموعہ کلام کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات قاری کو ذہن نشین رہنی چاہیے کہ شاعر ایک واضح پیغام لیکر اُفق ادب پر طلوع ہوا ہے۔ ان کی شاعری جذبوں کے تیز بہاؤ کا نام ہے۔موصوف کی شاعری انہی فرحت انگیز کیفیات کی نقیب ہے،جو فکری وسعت، گہرے احساسات اور سماجی و معاشرتی مدوجزر کی آئینہ دار ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ جب پیشکش کا انداز دل نشیں اور جادوئی ہو تو وہ شاعری دوآتشہ ہی نہیں سہ آتشہ اور چہار آتشہ ہوجاتی ہے۔ایک عرصے تک شعبہ صحافتسے وابستگی اور معاشرت سے قربت کے سبب ان کی شاعری زمینی سطح سے اچھی طرح مربوط ہے یہی وجہ ہے کہ جناب جمیل انصاری کی شاعری جذباتیت کی شاعری نہیں ہے۔ ان کے یہاں خوش آیند خوابوں کوحقیقت میں بدلنے کی تڑپ ہے، انسانی قدروں کے پامال ہونے کا ملال ہے، ٹوٹتے بکھرتے آپسی رشتوں کی بحالی کی آرزو ہے اور زندگی کی رمق پورے آب وتاب کے ساتھ
موجود ہے۔ حساس اور باشعور طبیعت کی جولانی ان کے اشعار میں موجِ تہہ نشیں کی طرح صاف صاف نظر آتی ہے۔
بہت مصروف لمحوں میں جو یادیں بھی نہیں آتیں
چلی آتی ہیں تنہائی میں وہ یادیں بذات ِخود
جناب جمیل انصاری نے غزل میں نت نئے موضوعات شامل کیے اور وسعت الفاظ کو ایک انوکھی جگہ دی اور اپنی شاعری کو ایسا ہمہ گیر بنایا کہ ان کی ذات بھی ہمہ شخصیت کی حامل ہو گئی جس سے ضرور مستقبل میں غزل کی دنیا میں جمیل انصاری کا نام ایک خوبصورت امتزاج کا مالک بنے گا۔جناب جمیل انصاری کے مجموعہ کلام کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات قاری کو ذہن نشین رہنی چاہیے کہ شاعر ایک واضح پیغام لیکر اُفق ادب پر طلوع ہوا ہے۔ ان کی شاعری جذبوں کے تیز بہاؤ کا نام ہے۔موصوف کی شاعری انہی فرحت انگیز کیفیات کی نقیب ہے،جو فکری وسعت، گہرے احساسات اور سماجی و معاشرتی مدوجزر کی آئینہ دار ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ جب پیشکش کا انداز دل نشیں اور جادوئی ہو تو وہ شاعری دوآتشہ ہی نہیں سہ آتشہ اور چہار آتشہ ہوجاتی ہے۔ایک عرصے تک شعبہ صحافتسے وابستگی اور معاشرت سے قربت کے سبب ان کی شاعری زمینی سطح سے اچھی طرح مربوط ہے یہی وجہ ہے کہ جناب جمیل انصاری کی شاعری جذباتیت کی شاعری نہیں ہے۔ ان کے یہاں خوش آیند خوابوں کوحقیقت میں بدلنے کی تڑپ ہے، انسانی قدروں کے پامال ہونے کا ملال ہے، ٹوٹتے بکھرتے آپسی رشتوں کی بحالی کی آرزو ہے اور زندگی کی رمق پورے آب وتاب کے ساتھ
موجود ہے۔ حساس اور باشعور طبیعت کی جولانی ان کے اشعار میں موجِ تہہ نشیں کی طرح صاف صاف نظر آتی ہے۔
پاکستانی کرکٹ آزمائش کے نئے موڑ پر!
ہمارے ملک کا تعلیمی نظام مسلسل تبدیلی اور جدیدیت کے عمل سے گزرتا ہی چلا جا رہا ہے اور بچے ہر بار نئی آزمائشوں کیلئے تیار رہتے ہیں، جس کی وجہ سے بچوں میں ہمیشہ بہتر سے بہتر کارگردگی دیکھانے کی جستجو بڑھتی چلی جا رہی ہے ۔پاکستان اپنے کسی بھی معاملے میں غیر مستحکم واقع ہوا ہے اور اس غیر مستحکم نے پاکستانی عوام کی سوچ بھی غیر مستحکم کر کے رکھ دی ہے۔ دنیا میں موجود ممالک مختلف وجوہات یا خصوصیات کی بناء ہے مشہور ہیں یا ہر خاص و عام ان ممالک کے ناموں سے واقف ہیں۔
دنیا کے تقریباً سارے ہی مشہور ممالک اپنی شہرت کی کوئی نا کوئی خاص وجہ ضرور رکھتے ہیں، کچھ ایسے بھی ہیں جو ایک سے زیادہ وجوہات کی بناء پر دنیا کو یاد رہتے ہیں۔ ہمارا پیارا وطن عزیز بھی ان میں سے ایک ہے جو ایک سے زیادہ وجہ سے یاد رکھے جاتے ہیں۔ ہم نے اس بات پر زور نہیں دے رہے کہ شہرت کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔ پاکستان بھی اس مختصر ممالک کی فہرست میں ہے جنکی وجہ شہرت ایک سے کئی زیادہ ہیں۔ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے ، پاکستان دنیا کی ان آٹھ ممالک کی فہرست میں بھی شامل ہے جو باقاعدہ طور پر ایٹمی طاقت ہیں، پاکستان دہشت گردی کیخلاف لڑی جانے والی جنگ میں بھی ہر اول دستے کی طرح اپنی ذمہ داریاں نبہاتا رہا ہے ، سیاسی و عسکری بحران بھی ہماری پہچان و خاصہ ہیں، حنیف محمد، وسیم وقار کی جوڑی، مشہور زمانہ شاہد خان آفریدی، جہانگیر خان اور جان شیر خان، حسین شاہ، عارفہ کریم، وغیرہ وغیرہ یہ ایک طویل فہرست ان لوگوں پر مشتمل ہے جنہوں نے دنیا کے سامنے پاکستان کا مثبت چہرہ پیش کیا ہے اور پاکستان کے مسخ ہوتے ہوئے چہرے پر کسی خوش نمانوید کا باعث بنے ہیں اور ان جیسے نام پاکستان کے ماتھے کا جھومر بنتے جا رہے ہیں۔ پہلے ایک بات سمجھ لیں کہ پاکستان ایک غیر مستحکم مملکت ہے اور یہاں کچھ بھی ہونے والا غیر متوقع تصور کیا جاتا ہے، یہاں لوگوں کی سوچ متززل رہتی ہے ، قسطوں میں فیصلے کرتے ہیں، فیصلہ کرتے ہیں بدلتے ہیں۔یعنی پاکستان ایک غیر متوازن مزاج کی حامل مملکت کا نام ہے۔
پاکستان نے کرکٹ کی دنیا میں بڑا نام بنایا ہے اور بڑے بڑے نام کرکٹ کو دئیے ہیں۔ گوکہ پاکستان کا قومی کھیل ہاکی ہے لیکن گزشتہ دو دہائیوں سے ہاکی تاریخ کی بد ترین سطح پر آچکی ہے ۔کرکٹ کا حال بھی کچھ اس زبوں حال ہاکی سے کم نہیں ہونا تھا مگر قسمت نے اس قوم میں چھوٹی عمروں میں ہی بڑے بڑے نام پیدا کردئیے جنہوں نے نا صرف ملک کی ساکھ کو سنبھالا بلکہ اونچائیوں کی جانب اٹھنا شروع کردیا۔ پہلے ٹیموں میں کوئی ایک سپر اسٹار ہوا کرتا تھا جس پر پوری ٹیم کا نحصار ہوتا تھا مگر اب کرکٹ کی تیز رفتاری ، بدلتے ہوئے طرز، رنگ برنگے کپڑے ، برقی قمقمے اور موسیقی نے ٹیم میں شامل ہر کھلاڑی کے اندر سپراسٹار پیدا کررکھا ہے اور ہر کھلاڑی موقع کی تلاش میں دیکھائی دیتا ہے ۔ جیسے ہی موقع میسر آتا ہے وہ اپنے آپ کو ثابت کر کے دیکھا دیتا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے گزشتہ سالوں میں کرکٹ پر بھرپور توجہ دی ہے جن میں داخلی امور کیساتھ ساتھ خارجی امور پر بھی نظر رکھی ہوئی ہے۔کرکٹ کی ترقی اور بحالی کے لئے بورڈ سے منسلک ہر ادارہ اپنا کام احسن و بحوبی انجام دیتے دیکھائی دے رہے ہیں۔ ان میں سب سے اہم انتخابی کمیٹی ہے جس کی ذمہ داری بورڈ نے پاکستان کے ناموربلے باز انضمام الحق کے کاندھوں پر رکھی ۔ انضمام الحق کیلئے مصباح الحق اور یونس خان کی ریٹائرمنٹ ایک مسلۂ ثابت ہوسکتی تھی لیکن انہوں نے نئے کھلاڑیوں پر اعتماد کرنے کو ترجیح دی جو کہ دومیسٹک کرکٹ میں خاطر خواہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے دیکھائی دیئے۔ انضمام الحق اور انکی کمیٹی کا فواد عالم کو نا چنا ایک سوال بن کر سامنے آیا ہے کیونکہ فواد عالم کیلئے اس سے بہتر وقت اور کوئی نہیں ہوسکتا تھا جبکہ دیگر چنے گئے کھلاڑیوں کے پاس ابھی بہت وقت باقی ہے اور مصباح اور یونس کی ریٹارئیرمنٹ کے بعد کو فواد کے چناؤ کو یقینی سمجھا جا رہا تھاجسے انضمام الحق نے یکسر نظر انداز کردیا، اب اس کے پیچھے کیا محرکات ہوسکتے ہیں اس کو وقت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ انضمام الحق کی اس ٹیم نے جسکی قیادت سرفرازاحمد کے ناتواں کاندھوں پر رکھی گئی جس نے دنیا کی آٹھ بہترین ٹیموں کے مابین کھیلی جانی والی چیمپئین ٹرافی میں انگلینڈ میں شرکت کی اور مختصراً یہ کہ بھارت اور انگلینڈ جیسی مضبوط ٹیموں کو شکست سے درکنار کیا اور پاکستان کے کیلئے چیمپئین ٹرافی جیتی۔ یہ ایک واقعی بہت بڑی کامیابی تھی جس سے کھلاڑیوں میں نا صرف اعتماد پیدا ہوا بلکہ کارکردگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی بھی جستجو پیدا ہوئی۔ پاکستان کی شاندار جیت میں ہر کھلاڑی نے اپنا حصہ ڈالا جن نئے کھلاڑیوں نے بغیر کسی دباؤ کے اپنی اپنی ذمہ داریاں بھرپور طریقے سے نبھائیں ان میں فخرزمان ، شاداب خان، فہیم اشرف ، حسن علی اور بابر اعظم کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس کے بعد سے ٹیم کے حوصلے بلند ہوئے اور کسی حد تک غیر متوقع ٹیم کے لقب سے جانی جانے والی ٹیم نے توقعات پر پورا اترنا شروع کیا۔
پاکستان کی ٹیم جوکہ تقریباً نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل ہے ایک انتہائی مشکل اور اپنے دور کے اہم ترین دورے پر ہے۔ مشکل اس لئے ہے کہ کھیلنے کیلئے میسر جو موسم دستیاب ہے وہ اپنے ملک سے قطعی مختلف ہے۔ ایسے موسم میں گیند بازوں کو تو بہت حد تک مدد ملتی ہے لیکن بلے بازوں کا کڑا امتحان ہوتا ہے اس کے ساتھ ساتھ موسم کے سرد ہونے کی وجہ سے فیلڈنگ کرنے میں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ محنت اور لگن سے لبریز یہ کم عمر دستہ آئرلینڈ کی ٹیم کو زیر کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے ، گوکہ آئرلینڈ کی ٹیم نے اپنا تاریخی پہلاٹیسٹ کھیلا ہے لیکن موسم کا ہتھیار انکے ساتھ تھا جس سے پاکستان کی ٹیم نے بڑی ہوشمندی سے سامنا کیااور کامیابی نے انکے قدم چومے۔ ٹیم اب اسی عزم اور حوصلے کو لے کر انگلینڈ کی سرزمین پر پہنچ چکی ہے اور لارڈز کے تاریخی میدان میں اپنے پہلے ٹیسٹ میچ کے پہلے دن ہی پاکستان کے گیند بازوں نے انگلینڈ کی ٹیم کو اپنے ارادوں کا پتہ بتا دیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے بلے باز انگریزی بلے بازوں کا مقابلہ کسطرح سے کرینگے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ دوٹیسٹ میچوں کی سیریز پاکستان اپنے نام کرنے کی پوری کوشش کرے گا۔ اس کے بعد ایک معرکہ اسکاٹ لینڈ کی ٹیم سے بھی سر کرنا ہے ۔ اس طویل دورے میں پاکستانی کھلاڑیوں کو کھیل کہیں زیادہ موسموں سے لڑائی کرنی پڑے گی۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارگردگی کا ذکر بغیر پاکستان سپرلیگ کا تذکرہ کئے بغیر نامکمل ہوگا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ اور اسکے اعلی حکام پی ایس ایل کو تقریبا پاکستان لے ہی آئے ہیں جو سفر دیارے غیر سے شروع ہوا تھا اب طے ہوتا ہوا اپنی دائمی منزل کی جانب تقریباً پہنچ چکا ہے ۔ اللہ نے چاہا تو بہت پاکستان میں بغیر کسی اضافی حفاظتی انتظامات کہ بین الاقوامی کرکٹ مقابلوں کا سلسلہ بھی شروع ہوجائے گااور دشمن اپنا منہ لے کر رہ جائیگا۔ جہاں ہم نے پاکستان کرکٹ بورڈ اور کھلاڑیوں کی انتخابی کمیٹی کی خدمات کا اعتراف کیا ہے تواگر ہم تربیتی عملے کا تذکرہ نا کریں تو یہ انکے ساتھ زیادتی ہوگی۔ تربیتی عملے نے اپنی خدمات بھرپور طریقے سے نبھائی ہیں اور اب تک کسی قسم کے اسکینڈل کی بھی خبر نہیں ہے ،جوکہ اس بات کی گواہی ہے کہ ڈریسنگ روم کا ماحول اچھا ہی نہیں بہترین ہے۔ سرفراز کی خداداد صلاحتیں اور مکی آرتھر کی تربیتی مشقیں پاکستان کی ٹیم کو بلندیوں کی جانب گامزن کئے ہوئے ہے۔ آج ہر کھلاڑی اپنی ذمہ داری محسوس کرتا اور اس کو پورا کرتا دیکھائی دے رہا ہے ۔
ٹیم میں اب اعتماد بھی ہے اور کچھ کر دیکھانے کا جذبہ بھی ہے ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ نوجوان کھلاڑیوں کو اعتماد دیا جائے انکی صلاحیتوں کا اعتراف کیا جائے اور ان کے اندر حب الوطنی کا جذبہ اجاگر کیا جائے۔ ٹیم میں تبدلیوں کے عمل کو کم سے کم رکھا جائے بلکہ انہیں کھلاڑیوں کو اگلے سال ہونے والے کرکٹ کے عالمی مقابلوں تک یکجا رکھا جائے ۔ اب اسے خوش قسمتی کہیں یا کچھ اور کہ عالمی کپ ۲۰۱۹ بھی انگلینڈ میں ہی منعقد کیا جارہا ہے اور انگلینڈ کی سرزمین پر پاکستانی ٹیم اچھا کھیل پیش کرتی دیکھائی دے رہی ہے ۔
دنیا کے تقریباً سارے ہی مشہور ممالک اپنی شہرت کی کوئی نا کوئی خاص وجہ ضرور رکھتے ہیں، کچھ ایسے بھی ہیں جو ایک سے زیادہ وجوہات کی بناء پر دنیا کو یاد رہتے ہیں۔ ہمارا پیارا وطن عزیز بھی ان میں سے ایک ہے جو ایک سے زیادہ وجہ سے یاد رکھے جاتے ہیں۔ ہم نے اس بات پر زور نہیں دے رہے کہ شہرت کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔ پاکستان بھی اس مختصر ممالک کی فہرست میں ہے جنکی وجہ شہرت ایک سے کئی زیادہ ہیں۔ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے ، پاکستان دنیا کی ان آٹھ ممالک کی فہرست میں بھی شامل ہے جو باقاعدہ طور پر ایٹمی طاقت ہیں، پاکستان دہشت گردی کیخلاف لڑی جانے والی جنگ میں بھی ہر اول دستے کی طرح اپنی ذمہ داریاں نبہاتا رہا ہے ، سیاسی و عسکری بحران بھی ہماری پہچان و خاصہ ہیں، حنیف محمد، وسیم وقار کی جوڑی، مشہور زمانہ شاہد خان آفریدی، جہانگیر خان اور جان شیر خان، حسین شاہ، عارفہ کریم، وغیرہ وغیرہ یہ ایک طویل فہرست ان لوگوں پر مشتمل ہے جنہوں نے دنیا کے سامنے پاکستان کا مثبت چہرہ پیش کیا ہے اور پاکستان کے مسخ ہوتے ہوئے چہرے پر کسی خوش نمانوید کا باعث بنے ہیں اور ان جیسے نام پاکستان کے ماتھے کا جھومر بنتے جا رہے ہیں۔ پہلے ایک بات سمجھ لیں کہ پاکستان ایک غیر مستحکم مملکت ہے اور یہاں کچھ بھی ہونے والا غیر متوقع تصور کیا جاتا ہے، یہاں لوگوں کی سوچ متززل رہتی ہے ، قسطوں میں فیصلے کرتے ہیں، فیصلہ کرتے ہیں بدلتے ہیں۔یعنی پاکستان ایک غیر متوازن مزاج کی حامل مملکت کا نام ہے۔
پاکستان نے کرکٹ کی دنیا میں بڑا نام بنایا ہے اور بڑے بڑے نام کرکٹ کو دئیے ہیں۔ گوکہ پاکستان کا قومی کھیل ہاکی ہے لیکن گزشتہ دو دہائیوں سے ہاکی تاریخ کی بد ترین سطح پر آچکی ہے ۔کرکٹ کا حال بھی کچھ اس زبوں حال ہاکی سے کم نہیں ہونا تھا مگر قسمت نے اس قوم میں چھوٹی عمروں میں ہی بڑے بڑے نام پیدا کردئیے جنہوں نے نا صرف ملک کی ساکھ کو سنبھالا بلکہ اونچائیوں کی جانب اٹھنا شروع کردیا۔ پہلے ٹیموں میں کوئی ایک سپر اسٹار ہوا کرتا تھا جس پر پوری ٹیم کا نحصار ہوتا تھا مگر اب کرکٹ کی تیز رفتاری ، بدلتے ہوئے طرز، رنگ برنگے کپڑے ، برقی قمقمے اور موسیقی نے ٹیم میں شامل ہر کھلاڑی کے اندر سپراسٹار پیدا کررکھا ہے اور ہر کھلاڑی موقع کی تلاش میں دیکھائی دیتا ہے ۔ جیسے ہی موقع میسر آتا ہے وہ اپنے آپ کو ثابت کر کے دیکھا دیتا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے گزشتہ سالوں میں کرکٹ پر بھرپور توجہ دی ہے جن میں داخلی امور کیساتھ ساتھ خارجی امور پر بھی نظر رکھی ہوئی ہے۔کرکٹ کی ترقی اور بحالی کے لئے بورڈ سے منسلک ہر ادارہ اپنا کام احسن و بحوبی انجام دیتے دیکھائی دے رہے ہیں۔ ان میں سب سے اہم انتخابی کمیٹی ہے جس کی ذمہ داری بورڈ نے پاکستان کے ناموربلے باز انضمام الحق کے کاندھوں پر رکھی ۔ انضمام الحق کیلئے مصباح الحق اور یونس خان کی ریٹائرمنٹ ایک مسلۂ ثابت ہوسکتی تھی لیکن انہوں نے نئے کھلاڑیوں پر اعتماد کرنے کو ترجیح دی جو کہ دومیسٹک کرکٹ میں خاطر خواہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے دیکھائی دیئے۔ انضمام الحق اور انکی کمیٹی کا فواد عالم کو نا چنا ایک سوال بن کر سامنے آیا ہے کیونکہ فواد عالم کیلئے اس سے بہتر وقت اور کوئی نہیں ہوسکتا تھا جبکہ دیگر چنے گئے کھلاڑیوں کے پاس ابھی بہت وقت باقی ہے اور مصباح اور یونس کی ریٹارئیرمنٹ کے بعد کو فواد کے چناؤ کو یقینی سمجھا جا رہا تھاجسے انضمام الحق نے یکسر نظر انداز کردیا، اب اس کے پیچھے کیا محرکات ہوسکتے ہیں اس کو وقت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ انضمام الحق کی اس ٹیم نے جسکی قیادت سرفرازاحمد کے ناتواں کاندھوں پر رکھی گئی جس نے دنیا کی آٹھ بہترین ٹیموں کے مابین کھیلی جانی والی چیمپئین ٹرافی میں انگلینڈ میں شرکت کی اور مختصراً یہ کہ بھارت اور انگلینڈ جیسی مضبوط ٹیموں کو شکست سے درکنار کیا اور پاکستان کے کیلئے چیمپئین ٹرافی جیتی۔ یہ ایک واقعی بہت بڑی کامیابی تھی جس سے کھلاڑیوں میں نا صرف اعتماد پیدا ہوا بلکہ کارکردگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی بھی جستجو پیدا ہوئی۔ پاکستان کی شاندار جیت میں ہر کھلاڑی نے اپنا حصہ ڈالا جن نئے کھلاڑیوں نے بغیر کسی دباؤ کے اپنی اپنی ذمہ داریاں بھرپور طریقے سے نبھائیں ان میں فخرزمان ، شاداب خان، فہیم اشرف ، حسن علی اور بابر اعظم کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس کے بعد سے ٹیم کے حوصلے بلند ہوئے اور کسی حد تک غیر متوقع ٹیم کے لقب سے جانی جانے والی ٹیم نے توقعات پر پورا اترنا شروع کیا۔
پاکستان کی ٹیم جوکہ تقریباً نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل ہے ایک انتہائی مشکل اور اپنے دور کے اہم ترین دورے پر ہے۔ مشکل اس لئے ہے کہ کھیلنے کیلئے میسر جو موسم دستیاب ہے وہ اپنے ملک سے قطعی مختلف ہے۔ ایسے موسم میں گیند بازوں کو تو بہت حد تک مدد ملتی ہے لیکن بلے بازوں کا کڑا امتحان ہوتا ہے اس کے ساتھ ساتھ موسم کے سرد ہونے کی وجہ سے فیلڈنگ کرنے میں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ محنت اور لگن سے لبریز یہ کم عمر دستہ آئرلینڈ کی ٹیم کو زیر کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے ، گوکہ آئرلینڈ کی ٹیم نے اپنا تاریخی پہلاٹیسٹ کھیلا ہے لیکن موسم کا ہتھیار انکے ساتھ تھا جس سے پاکستان کی ٹیم نے بڑی ہوشمندی سے سامنا کیااور کامیابی نے انکے قدم چومے۔ ٹیم اب اسی عزم اور حوصلے کو لے کر انگلینڈ کی سرزمین پر پہنچ چکی ہے اور لارڈز کے تاریخی میدان میں اپنے پہلے ٹیسٹ میچ کے پہلے دن ہی پاکستان کے گیند بازوں نے انگلینڈ کی ٹیم کو اپنے ارادوں کا پتہ بتا دیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے بلے باز انگریزی بلے بازوں کا مقابلہ کسطرح سے کرینگے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ دوٹیسٹ میچوں کی سیریز پاکستان اپنے نام کرنے کی پوری کوشش کرے گا۔ اس کے بعد ایک معرکہ اسکاٹ لینڈ کی ٹیم سے بھی سر کرنا ہے ۔ اس طویل دورے میں پاکستانی کھلاڑیوں کو کھیل کہیں زیادہ موسموں سے لڑائی کرنی پڑے گی۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارگردگی کا ذکر بغیر پاکستان سپرلیگ کا تذکرہ کئے بغیر نامکمل ہوگا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ اور اسکے اعلی حکام پی ایس ایل کو تقریبا پاکستان لے ہی آئے ہیں جو سفر دیارے غیر سے شروع ہوا تھا اب طے ہوتا ہوا اپنی دائمی منزل کی جانب تقریباً پہنچ چکا ہے ۔ اللہ نے چاہا تو بہت پاکستان میں بغیر کسی اضافی حفاظتی انتظامات کہ بین الاقوامی کرکٹ مقابلوں کا سلسلہ بھی شروع ہوجائے گااور دشمن اپنا منہ لے کر رہ جائیگا۔ جہاں ہم نے پاکستان کرکٹ بورڈ اور کھلاڑیوں کی انتخابی کمیٹی کی خدمات کا اعتراف کیا ہے تواگر ہم تربیتی عملے کا تذکرہ نا کریں تو یہ انکے ساتھ زیادتی ہوگی۔ تربیتی عملے نے اپنی خدمات بھرپور طریقے سے نبھائی ہیں اور اب تک کسی قسم کے اسکینڈل کی بھی خبر نہیں ہے ،جوکہ اس بات کی گواہی ہے کہ ڈریسنگ روم کا ماحول اچھا ہی نہیں بہترین ہے۔ سرفراز کی خداداد صلاحتیں اور مکی آرتھر کی تربیتی مشقیں پاکستان کی ٹیم کو بلندیوں کی جانب گامزن کئے ہوئے ہے۔ آج ہر کھلاڑی اپنی ذمہ داری محسوس کرتا اور اس کو پورا کرتا دیکھائی دے رہا ہے ۔
ٹیم میں اب اعتماد بھی ہے اور کچھ کر دیکھانے کا جذبہ بھی ہے ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ نوجوان کھلاڑیوں کو اعتماد دیا جائے انکی صلاحیتوں کا اعتراف کیا جائے اور ان کے اندر حب الوطنی کا جذبہ اجاگر کیا جائے۔ ٹیم میں تبدلیوں کے عمل کو کم سے کم رکھا جائے بلکہ انہیں کھلاڑیوں کو اگلے سال ہونے والے کرکٹ کے عالمی مقابلوں تک یکجا رکھا جائے ۔ اب اسے خوش قسمتی کہیں یا کچھ اور کہ عالمی کپ ۲۰۱۹ بھی انگلینڈ میں ہی منعقد کیا جارہا ہے اور انگلینڈ کی سرزمین پر پاکستانی ٹیم اچھا کھیل پیش کرتی دیکھائی دے رہی ہے ۔
پانی لائنیں یا امراض سپلائی کرنے کی مشینیں۔۔۔
سوات کے مرکزی شہر مینگورہ میں ایک عرصہ سے پانی کی لائنیں انتہائی بوسیدہ اورزنگ آلود ہوچکی ہیں جن سے اب پانی کم اورامراض زیادہ سپلائی ہوتے ہیں ،یہ لائنیں کافی عرصہ قبل بچھائی گئی تھیں تاکہ لوگوں کو میونسپل کمیٹی کی جانب سے ضرورت کے مطابق پانی میسرآسکے اس زمانے میں یہ لائنیں اس مقصد کو بہتراندازمیں پوراکررہی تھیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ لائنیں زنگ آلود اورخستہ حال ہورہی تھیں اور آج حال یہ ہے کہ وہ مزید استعمال کے قابل نہیں رہیں ،مینگورہ شہر میں ان لائنوں کو ندی نالوں میں سے گزارا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ ٹیوب ویلوں سے پانی سپلائی کرتے وقت ندی نالوں کی گندگی ان لائنوں میں داخل ہوتی ہے اورپانی کے ساتھ مل کر لوگوں کے گھروں میں پہنچ جاتی ہے جسے لوگ بے خبری میں استعمال کرکے مختلف امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں،اس وقت سوات میں ہزاروں کی تعدادمیں لوگ ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہیں جس کی بڑی وجہ آلودہ اور گندے پانی کا استعمال ہے،سوات کاپانی کسی زمانے میں لوگ مختلف امراض کے علاج کے طورپراستعمال کرتے تھے میں مگر اب وہ آب حیات خود امراض پھیلانے کاسبب بن رہاہے ،ٹوٹ پھوٹ کا شکار پانی کی پائپ لائنیں تبدیل کرنے کیلئے ابھی تک نہ تو انتظامیہ نے کو ئی اقدام اٹھایا اور نہ ہی ٹی ایم اے نے کوئی توجہ دینے کی زحمت گوارا کی ہے ،ذمہ داروں کی اس لاپرواہی کی وجہ سے ہیپاٹائٹس سمیت دیگر امراض بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہے ہیں ،یہاں کے عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات تو شروع ہی سے میسر نہیں صرف صاف پانی تھا جو بڑی فروانی کے ساتھ ملتاتھا مگر اب وہ بھی ناپید ہوچکاہے ،پانی کی خستہ حال اور زنگ آلود پائپ لائنوں پر جگہ جگہ پلاسٹک اور کہیں کہیں لوہے کے جائنٹ لگے ہوئے ہیں جس سے بڑی تیزی کے ساتھ پانی بہہ کرضائع ہورہاہے جس کی کئی بارنشاندہی بھی کی گئی مگر کسی نے ان لائنوں کوتبدیل کرنے اور ان کی جگہ نئے پائپ لگانے کیلئے اقدام نہیں اٹھایا ، اس سلسلے میں عوام کا کہناہے کہ ہرحکومت نے یہاں کے عوام کے ساتھ لاتعدادوعدے کئے جن میں صاف پانی کی فراہمی کا وعدہ بھی سرفہرست رہا مگر کسی بھی حکومت نے اپنایہ وعدہ پورا نہیں کیا مقامی لوگ کہتے ہیں کہ جو حکومت عوام کو صاف پانی فراہم نہیں کرسکتی اس سے دیگرسہولیات کی فراہمی کی توقع رکھنا بے کارہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومت ،انتظامیہ اور ٹی ایم اے مینگورہ شہر میں ندی نالوں اور عام راستوں پر بچھائی گئیں پانی کی خستہ حال اور زنگ آلود لائنوں کو ہٹاکر ان کی جگہ نئی لائنیں بچھانے کیلئے فوری اقدامات اٹھائیں اس سے اگرایک طرف یہاں کے عوام کو پینے کا صاف پانی میسر آسکے گا تو دوسری طرف مزید لوگ امراض میں مبتلا ہونے سے بچ جائیں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومت ،انتظامیہ اور ٹی ایم اے مینگورہ شہر میں ندی نالوں اور عام راستوں پر بچھائی گئیں پانی کی خستہ حال اور زنگ آلود لائنوں کو ہٹاکر ان کی جگہ نئی لائنیں بچھانے کیلئے فوری اقدامات اٹھائیں اس سے اگرایک طرف یہاں کے عوام کو پینے کا صاف پانی میسر آسکے گا تو دوسری طرف مزید لوگ امراض میں مبتلا ہونے سے بچ جائیں گے۔
Subscribe to:
Posts (Atom)